قرآن کے اہم نکات اور مقاصد امام خمینی (رح) کی نظر میں

قرآن کے اہم نکات اور مقاصد امام خمینی (رح) کی نظر میں

موجودہ دور میں قرآن کریم کے عظیم احیاگر امام خمینی(رح) نے اپنے خطوط اور تقاریر میں قرآن کریم کی عظمت اور منزلت کے بارے میں اپنے قرآنی افکار کو بیان کیا ہے

 

قرآن کریم مسلمانوں کا سب سے اہم فکری ماخذ ہے اور اسلامی فکر کے دیگر ذرائع جیسے حدیث و سنت کا معیار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تعلیمات دیگر اسلامی ذرائع سے موصول ہوئی ہیں اگر وہ قرآن کی تعلیمات سے تضاد ہوں تو وہ صحیح نہیں ہیں، اس آسمانی کتاب کے لیے بہت سے نام، القاب اور صفات استعمال کیے گئے ہیں۔

جب کہ قرآن کریم کی اہمیت سب پر واضح ہے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن، یہ کتاب ہدایت اور یہ کتاب جو پیارے پیغمبر اسلام (ص) کا معجزہ ہے، کیا اہداف و مقاصد رکھتی ہے؟ اور ان اہداف کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے بہتر ہے کہ قرآن کریم کے مفسر اور بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کے آثار کا مطالعہ کریں اور ان کے فرمودات سے استفادہ کریں۔

موجودہ دور میں قرآن کریم کے عظیم احیاگر امام خمینی(رح) نے اپنے خطوط اور تقاریر میں قرآن کریم کی عظمت اور منزلت کے بارے میں اپنے قرآنی افکار کو بیان کیا ہے۔ اگرچہ ان سے کتاب کی شکل میں صرف ایک قرآنی کام رہ گیا ہے، یعنی سورہ حمد کی تفسیر، لیکن اس ممتاز علمی شخصیت کے اعلیٰ قرآنی افکار ان کی تحریروں اور تقریروں میں واضح اور نمایاں ہیں۔

 

نزول قرآن کا مقصد، قرآن کی زبانی

ہمیں  چاہیے کہ اس کتاب کے مقصد نزول کو عقلی واستدلالی نظر سے سمجھنے کے بجائے خود اس قرآن سے سمجھیں  کہ جو اپنے مقصد نزول کو خود بیان کرتی ہے کیونکہ کتاب کا مصنف اپنی کتاب کے مقصد تالیف کو بہتر طور جانتا ہے۔ اگر ہم اس مصنف کے قرآن کریم کی شان ومنزلت اور مقصد کی جانب اشارہ کرنے والے ارشادات کی طرف توجہ کریں  تو ہم دیکھیں  گے کہ وہ خود فرماتا ہے: "ذٰلِکَ الکِتٰابُ لارَیْبَ فِیہِ ہُدیً لِلْمُتَّقِین؛ اس کتاب میں  کوئی شک نہیں  ہے وہ پرہیزگاروں  کیلئے باعث ہدایت ہے۔" (بقره/2)   اس نے اس کتاب کو کتاب ہدایت کے طورپر متعارف کرایا ہے۔ ایک اور جگہ دیکھتے ہیں  کہ اس نے ایک مختصر سے سورے میں  کئی مرتبہ اس جملہ کی تکرار کی ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِر؛ اور ہم نے قران کو نصیحت کیلئے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی نصیحت لینے والا ہے۔" (قمر/17) ایک اور جگہ ارشاد ہوا: "وَأنْزَلْنٰا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنّٰاسِ مٰا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون؛ اور ہم نے قرآن کو تمہاری طرف نازل کیا تاکہ اس چیز کو جو لوگوں  کیلئے بھیجی گئی ہے، ان کیلئے بیان کرو تو شاید وہ تفکر کریں۔" (نحل/44)

(آداب الصلاة، ص 193)

 

قرآن اور اعلیٰ مقاصد کی جانب راہنمائی

نہ کوئی شئے قرآن سے بہتر ہے اور نہ ہی قرآن سے بالاتر کوئی مکتب وجود رکھتا ہے۔ یہ صرف قرآن ہی ہے جو ان اعلیٰ مقاصد کی جانب ہماری ہدایت کرتا ہے جنہیں  ہم نہیں  جانتے لیکن باطنی طورپر ہماری ذات ان کی طرف متوجہ ہے۔

(صحیفہ امام، ج 12، ص 511)

 

قرآن، خداوند عالم کا وسیع وعریض دسترخوان

قرآن مجید ایک ایسا وسیع وعریض دسترخوان ہے کہ سب ہی اس سے استفادہ کرتے ہیں  بس فرق یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی صلاحیت واستعداد کے مطابق بہرہ مند ہوتا ہے۔ البتہ کتاب خدا اور انبیاء عظام کی نظر وتوجہ کا معیار وسیع معرفت ہے۔

(صحیفہ امام، ج 19، ص 115)

 

قرآن معرفت الٰہی کا داعی

مجموعی طورپر قرآن کے اہم ترین مقاصد میں  سے ایک معرفت خدا کی طرف دعوت اور پروردگار کی ذات، اسمائ، صفات وافعال کے معارف وعلوم کو بیان کرنا ہے۔ ان سب میں  جوچیز سب سے زیادہ اس کے پیش نظر ہے وہ خداوند عالم کی ذات، اسماء اور افعال کی توحید ہے کہ ان میں  سے بعض نکات بہت واضح طورپر اور بعض مخفی اشاروں  کی صورت میں  ذکر کیے گئے ہیں ۔

(آداب الصلاة، ص 185)

 

اﷲ تعالیٰ کی توصیف اور قرآن

اگر آپ کتاب الٰہی، رسول اکرم  ؐ اور ان کے جانشین وخلیفہ حضرات معصومین علیہم السلام کے آثار، خطبات اور احادیث کا تھوڑا سا مطالعہ کریں  تو آپ متوجہ ہوں  گے کہ علوم ومعرفت کے تمام تصور کیے جانے والے مقاصد میں  سے کسی بھی مقصد کو کسی بھی حکیم وعارف نے ان سے زیادہ بیان نہیں  کیا ہے۔ قرآن اور محمد  ؐ وآل محمد  ؑ کے تمام کلمات ذات اقدس الٰہ کی تعریف وتوصیف اور اس کی ذات وصفات پر استدلال سے اس طرح لبریز ہیں  کہ ہر گروہ اپنے فہم وادراک کے مطابق اس سے بہرہ مند ہوتا ہے۔

(چہل حدیث، ص 195)

 

معرفت خدا کا حصول، وحی کا سب سے بڑا مقصد

وحی الٰہی کا سب سے بڑا مقصد انسان کیلئے معرفت کی راہوں  کو کھولنا ہے اور اس میں  سرفہرست اﷲ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ اگر تزکیہ نفس کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے فوراً بعد تعلیم کی بات کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک نفوس کا تزکیہ نہ ہو وہ معرفت کی بلندیوں  کی طرف پرواز نہیں  کرسکتے۔

(صحیفہ امام، ج 18، ص 262)

ای میل کریں