تحریر: ارشاد حسین ناصر
اربعین شہدائے کربلا و ابا عبد اللہ الحسین ؑ کیلئے دنیا بھر سے کربلا جانے کے خواہش مند اس وقت تڑپ رہے ہیں، زیارات آئمہ علیھم السلام کی فضیلت و اہمیت کے بارے میں جتنی احادیث و اقوال معصومینؑ نقل ہوئے ہیں، وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہماری مجالس، دروس، لیکچرز، محافل میں اس پر علماء و ذاکرین و خطباء روشنی ڈالتے رہتے ہیں، اس لئے زیارات مزارات مقدس و روضہ جات معصومین ؑ پر جانے کی تڑپ، خواہش اور آرزو ہر ایک حسینی محسوس کرتا رہتا ہے اور اس کیلئے دعائیں کرتا ہے، منتیں مانتا ہے، اسباب، وسائل، بلاوے، منظوری کیلئے مخلصانہ کوشش کرتا ہے۔ یہ ایام جب صفر کا آغاز ہوچکا ہے، پاکستان سے زیارت ابا عبد اللہ الحسین ؑ اور کربلا سے نجف تک مشی(پیادہ روی) کرنے کے خواہش مندوں کیلئے تو ہر لمحہ و ساعت قیامت کی گھڑیاں محسوس ہوتی ہیں۔
کچھ دن قبل جب عراق کے حالات یک دم خراب ہوگئے، پرتشدد مظاہرے، فائرنگ اور احتجاج کی خبریں سامنے آئیں اور یہ خبریں چلیں کہ ایران نے اپنے شہریوں کو بغداد، بلد، سامرہ اور کاظمین کا سفر کرنے سے روک دیا ہے۔ بارڈر کلوز ہوگئے ہیں اور فلائٹس کینسل ہوچکی ہیں تو بہت سے لوگ مایوس ہوگئے۔ اہل پاکستان پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں کہ عراق حکومت نے پاکستانی زائرین کیلئے بائی روڈ ایران سے داخلہ پر پابند ی لگا رکھی ہے، جس سے پاکستان کے عام زائرین جو مہنگے بائی ایئر پیکیجز کے متحمل نہیں، انہیں اس فیصلے سے شدید پریشانی لاحق ہے۔ اس وقت بائی روڈ وہی زائرین جا رہے ہیں، جو پاکستان سے بائی روڈ جا کر ایران میں تہران سے نجف کیلئے بائی ایئر ٹکٹ لینے کی پوزیشن رکھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جو ٹکٹ نارمل حالات میں 20 سے 25 ہزار پاکستانی روپے میں ملتا تھا، اب دوہری رقم پر پہنچ چکا ہے، اس سے بھی کافی پریشانی ہوئی ہے۔
عراقی حکومت کے فیصلے کے پس پردہ کہا جا رہا ہے کہ وہ لوگ جو عراق مزدوری کیلئے غیر قانونی طور پر جا رہے ہیں، انہیں روکنے کیلئے ایسا کیا گیا ہے۔ سختی کا یہ عالم ہے کہ 45 سال سے کم عمر زائرین کیلئے لازم ہے کہ اس کی ماں، بہن یا کوئی محرم خاتون ساتھ ہو، تب اسے ویزہ ملے گا۔ اس طرح کے فیصلوں کا اثر سب سے زیاد زائرین پر پڑتا ہے، جبکہ وہ عناصر جو اس طرح کا گھنائونا کھیل کھیلتے ہیں اور پاکستانی لوگوں کو مزدوری کیلئے عراق میں لے جاتے ہیں، وہ متبادل ذرائع، رشوت وغیرہ دے کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لوگوں کو ویزے دلوانے والی کمپنیوں کو مکمل بلیک لسٹ کیا جائے اور ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حکومت پاکستان بھی اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھائے، پاکستان سے انسانی سمگلنگ کا دھندہ کرنے والوں نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے، یورپ جانے کے خواہش مند کنٹینروں اور سمندروں کے پانیوں اور برفیلے راستوں یا صحرائوں میں جان دینے والوں میں پاکستانی کسی سے کم نہیں ہیں، لہذا اس کیلئے اگر سپیشل فورس بھی بنانا پڑے تو بنانا چاہیئے۔
اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اہل پاکستان ان زیارات کیلئے بہت قربانیاں دے چکے ہیں۔ ماضی میں انہیں زیارت کیلئے جاتے ہوئے بم دھماکوں سے شہید کیا گیا، مگر یہ پھر بھی نہیں رکے۔ یہ سفر جاری رہا، عراق مین انہیں بسوں سے اتار کے مارا گیا، یہ پھر بھی اس سفر سے نہیں رکے۔ اب عراق حکومت کے فیصلے سے اگرچہ کافی مشکلات اور پریشانیاں ہیں، جن کا ذکر بھی کیا گیا، مگر یہ عاشقان حسین ؑ اس راستے کو کسی بھی صورت ترک کرنے والے نہیں، اب ایسا ہی ہے۔ اہل پاکستان اس وقت سیلاب کی شکل میں ایک بہت بڑی آفت کا شکار ہیں اور پورے ملک کا نظام درہم برہم ہوچکا ہے جبکہ سڑکیں، ٹرین کی پٹڑیاں ٹوٹنے کی خبریں چل رہی ہیں، راستوں کی مشکلات بڑھ چکی ہیں، اس کے باوجود عاشقان امام حسین ؑ تڑپ رہے ہیں کہ کسی بھی طرح زیارت کیلئے پہنچ سکیں۔
دراصل گذشتہ دو برس مسلسل کرونا کی وبا کے باعث زیارات پر سخت پابندیاں تھیں اور لوگ انتظار میں تھے کہ پابندیاں ختم ہوں تو عتابات عالیہ پر حاضری دے سکیں، اب کرونا کی پابندیاں ختم ہوئی ہیں تو دیگر کئی قسم کی مختلف اطراف سے مشکلات نے آن جکڑا ہے۔ لہذا جو لوگ اس دن کے انتظار میں ہیں، جو لوگ پیادہ روی اور ابا عبد الحسین ؑ کے گنبد کے سائے تلے نماز عشق ادا کرنے کے متمنی ہیں، انہیں حالات نے بے چین کیا ہے، یہ بے چینی اپنی جگہ مگر عقیدہ رکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ جب ادھر سے بلاوا آگیا تو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔
اربعین اور پیادہ روی تو جب داعش کا عراق کے بڑے حصے پر قبضہ ہوچکا تھا، تب بھی روایتی شان و شوکت سے ہوئے۔ پوری دنیا کے زائرین ابا عبد اللہ الحسین ؑ نے کسی خطرے کو خاطر میں لائے بغیر اربعین امام حسین ؑ کیلئے عراق کا سفر کیا۔ مجھے خود ان برسوں 2013ء، 2014ء میں یہ سعادت حاصل ہوئی، ان برسوں میں داعش عراق و شام میں اپنی سفاکیت و سفیانیت کی بلندیوں کو چھو رہی تھی، مگر کروڑوں لوگ پیادہ روی میں شریک تھے۔ عتبات عالیہ پر زائرین جو دنیا بھر کے ممالک سے تشریف لائے تھے، موجود تھے۔ سب سے بڑی یہ بات کہ کسی میں کسی بھی قسم کا خوف، ڈر یا خطرہ محسوس نہیں کیا جا رہا تھا۔ ہر ایک اپنی عبادت، اپنی مناجات، اپنی عزاداری، اپنی حاضری میں یکسو تھا۔
اب بھی ایسا ہی ہوگا کہ کربلا کیلئے تڑپتے دلوں کو اس وقت قرار آئے گا، جب ان کی پہلی نظر گنبد مولا غازی عباس پر پڑے گی، ان کی آنکھوں میں اس وقت ٹھنڈک محسوس ہوگی، جب فرزند علی و بتول ابا عبداللہ الحسین ؑکے روضہ اطہر پر پہلی نگاہ پڑے گی اور آنکھوں سے آنسو نکل کر چہرے کا وضو کریں گے۔ دعا ہے کہ جس نے بھی ابا عبداللہ الحسین ؑ کی زیارت اور پیادہ روی کا ارادہ کر رکھا ہے، حضرت صاحب العصر والزمان ؑ کے لطف و کرم سے اسے یہ سفر نصیب ہو اور یقیناً ہوگا کہ کروڑوں لوگوں کا کربلا میں پہنچ جانا، اہل عراق یا اہل ایران کا کام نہیں، یہ انتظام و انصرام کسی اور طرف سے ہوتا ہے، وہی اس کو ممکن بنائیں گے اور ہم ظہور امام کی اس تجلی کا نظارہ کریں گے، ان شاء اللہ۔