صلح امام حسن مجتبی (ع) امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت!

صلح امام حسن مجتبی (ع) امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت!

اگر یہ صلح نہ ہوتی تو آج صحاح، سنن اور مسند میں سے ایک روایت بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتی

صلح امام حسن مجتبی (ع) امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت!

 

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی کلکتوی

 

حوزہ نیوز ایجنسی । حسن بن علی بن ابی طالب (3-50ھ) امام حسن مجتبیؑ کے نام سے مشہور شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپ کی امامت کی مدت دس سال (40-50ھ) پر محیط ہے۔ آپ تقریبا 7 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔ اہل سنت آپ کو خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ مانتے ہیں۔

21 رمضان 40ھ میں امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور اسی دن 40 ہزار سے زیادہ لوگوں نے آپ کی بیعت کی۔ معاویہ نے آپ کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور شام سے لشکر لے کر عراق کی طرف روانہ ہوا۔ امام حسنؑ نے عبید اللہ بن عباس کی سربراہی میں ایک لشکر معاویہ کی طرف بھیجا اور آپؑ خود ایک گروہ کے ساتھ ساباط کی طرف روانہ ہوئے۔ معاویہ نے امام حسن کے سپاہیوں کے درمیان مختلف شایعات پھیلا کر صلح کیلئے زمینہ ہموار کرنے کی کوشش کی.. ان فتنوں کے پیش نظر امام حسنؑ نے وقت اور حالات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے معاویہ کے ساتھ صلح کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ معاویہ قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوگا، اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کرے کا اور تمام لوگوں خاص کر شیعیان علیؑ کو امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے گا۔ لیکن بعد میں معاویہ نے مذکورہ شرائط میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا...

صلح کے بعد آپ سنہ 41ھ میں مدینہ واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک یہیں پر مقیم رہے۔ مدینہ میں آپؑ علمی مرجعیت کے ساتھ ساتھ سماجی و اجتماعی طور پر بلند مقام و منزلت کے حامل تھے۔

معاویہ نے جب اپنے بیٹے یزید کی بعنوان ولی عہد بیعت لینے کا ارادہ کیا تو امام حسنؑ کی زوجہ جعدہ کیلئے سو دینار بھیجے تاکہ وہ امام کو زہر دے کر شہید کرے۔ کہتے ہیں کہ آپؑ زہر سے مسموم ہونے کے 40 دن بعد شہید ہوئے۔

یہاں ایک ایسے سوال کا جواب حاضر ہے جسے اپنوں کے ساتھ ساتھ غیر بھی کرتے ہیں کہ اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو کیا ہوتا؟!

اگر امام حسن علیہ السلام صلح نہ کرتے تو معاویہ ابن ابی سفیان اسے بہانہ بنا کر یہی وہ لوگ ہیں جو عثمان کے قاتل ہیں اپنے مسلح لشکر کے ساتھ کوفہ میں وارد ہوتا اور وہاں کے حکومتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام کو درھم برھم کرتا،عوام الناس خاص کر شیعیان علی کا قتل‌عام کرتا...

اگر صلح و امنیت کی تدبیر نہ کرتے تو شیعوں کو قتلِ عثمان کے بہانے سب سے زیادہ نقصان پہنچتااور وہ روایات جو امیر (ع) اور اہل بیت (ع) کے فضائل میں آج تک صحاح اور مسانید اہل سنت میں موجود ہیں،ان کا کوئی اتا پتہ نہیں ہوتا... امام حسن (ع) کا یہ طرزِ عمل اور اقدامات امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم امام حسن علیہ السلام کی حد درجہ دور اندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبر و برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ ولایت و امامت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں... خود امام حسن مجتبی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے کے اسباب و وجوہات کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :اگر میں صلح نہ کرتا تو معاویہ ابن ابی سفیان کو یہ موقع فراہم ہوتا کہ وہ ، اس کے نام پر کہ یہ عثمان کے قاتل ہیں، وہ سب کو قتل کر دیتا،اگر اس صلح کا طوق خاردار اس شخص کے گلے میں نہ ڈالا جاتا تو آج ہمارے پاس نہج البلاغہ کا ایک خطبہ بھی نہیں ہوتا ۔

اگر یہ صلح نہ ہوتی تو آج صحاح، سنن اور مسند میں سے ایک روایت بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتی ،اگر یہ صلح نہیں ہوتی تو اسلام اور شیعیت کے لطیف اصول و اقدار ہمارے ہاتھ میں نہ ہوتے ،ہمارے پاس اگر علی (ع) کی سیرت ، پیغمبر اکرم کی صحیح سیرت و تعلیمات، قرآن کی صحیح تفسیر ہمارے وغیرہ موجود ہے تو یہ صلح کا ہی نتیجہ ہے...

یہ کہنا حق بجانب ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام نے معاویہ جیسے مجہول النسل سے صلح کرکے اسلامی اقدار و روایات کو تحفظ فراہم کیا اور شیعیت کو حیات نو بخشی ہے آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ امام حسن علیہ السلام کے صبر و استقامت اور آپ کی صلح کا نتیجہ ہے ۔

یہ ساری باتیں امام حسن علیہ السلام کی صلح کے رازوں میں سے ایک راز ہے نیز اس بات سے بھی غض بصر نہیں کرنی چاہیئے کہ چودہ سو سال سے آج تک جو تحریک حسینی دنیائے مظلومیت کیلئے سبق آموز ہے وہ سبط رسول الثقلین حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی دانشمندی کا ہی نتیجہ ہے اگر آپ کی زیرکی و دانشمندی نہ ہوتی تو شاید امام حسین علیہ السلام ؐکا عظیم انقلاب عالم انسانیت کے لئے کبھی مینارہ نور نہیں بن پاتا... افسوس ان رازوں اور مصلحت اندیشی کو دشمن تو دشمن دوست بھی سمجھنے سے قاصر رہے اور صلح کے بعد شہزادہ ءصلح و امن، سردار جوانان ِ جنت، سبط رسول ۔جانِ علی و بتول سے ناراض ہوئے یہاں تک کہ بعض نے آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل کرنے والے) سے خطاب بھی کیا جو تاریخ کے اوراق پر آج بھی ثبت ہے

موجودہ جنگ و جدل سے جھلسے دور میں شہزادہ صلح امن حضرت امام حسن کؑی تعلیمات ساری دنیا کے لئے امن و چین کی ضمانت ہیں۔

ای میل کریں