نفس کا بت، تمام بتوں کا سردار ہے
میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ ضخیم حجاب سے باہر آنے کا پہلا قدم کسی چیز کا انکار کرنا ہے جو ہر قسم کی رشد وترقی اور قدم مثبت کے مانع ہے۔ کسی چیز کا انکار نہ کرنا بھی کمال نہیں ہوسکتا لیکن کمال کی جانب ایک راہ کو کھول سکتا ہے۔ جیسا کہ بیداری کو سیر وسلوک میں سالک کی منزل اول حساب کیا جاتا ہے لیکن اسے پہلی منزل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، بلکہ یہ بیداری سیر وسلوک کی منزلوں کیلئے ایک مقدمے اور ایک دریچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہرحال ہر صورت میں انسان انکار کے ساتھ معرفت کی منازل کی طرف سفر نہیں کرسکتا ہے۔
وہ لوگ جو سالکوں کی منازل اور عرفا کے مقامات کا انکار کرتے ہیں چونکہ خودخواہ اور خودپسند ہیں لہذا جیسے نہیں جانتے ہیں اسے اپنی جہالت کا نتیجہ قرار نہیں دیتے۔ یہ لوگ ایسی چیزوں اور عرفا کے مقامات اور منازل کا انکار اس لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی خودخواہی اور خودبینی پر کوئی حرف نہ آئے۔ نفس کا بت تمام بتوں کا سردار ہے اور جب تک یہ بڑا بت اور طاقتور شیطان راہ معرفت سے اٹھایا نہ جائے اس وقت تک خدا کی طرف قدم اٹھانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بہت بعید ہے کہ ہمارا یہ بت ٹوٹے یا شیطان رام ہوجائے۔
(رہ عشق، ص ۳۶)
خودخواہی سے نجات
اپنی ان خواہشات اور آرزوؤں کو کچل دیں کہ جن کو آپ قابل اہمیت سمجھتے ہیں ۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس عظمت خدا کے مقابلے میں ہماری کیا حیثیت ہے اس خدائی عظمت وجلال کے سامنے یہ نظام شمسی، کیا حیثیت رکھتا ہے اور ان کہکشانوں کی حقیقت کیا ہے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ہم ایک پلید وکثیف شیطنت میں گرفتار ہیں اور یہ شیطنت کوئی باہر کی چیز نہیں ہے، بلکہ ہم خود اپنے اندر کی پست ورذیل شیطنت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ہم اور آپ کو چاہیے کہ خود کو اس دلدل سے نجات دیں ۔ اگر ہم اس قید سے رہائی حاصل کرلیں تو اس کے بعد آنے والی منزلیں آسان ہوجائیں گی اور ہمیں اتحاد کی منزل پر پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ لہذا ہمیں اس قید اور خودخواہی کے زندان سے رہائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میں جو بھی چاہتا ہوں صرف اپنے لیے، خود محوری میرا مطمح نظر ہے۔ بس میں اور میں ، نہ کوئی اور، وہ سب باتیں ہمارے نفسوں میں رچی بسی ہیں اور انہی کی تہذیب اور اصلاح کی ضرورت ہے۔
(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۵۳۰)