امام خمینی (رح)

عُجب کا نتیجہ

جان لو کہ نفسانی صفات خواہ وہ عیوب، نقائص اور رذائل سے تعلق رکھتی ہوں یا کمال وفضیلت سے سب بہت باریک اور آپس میں مخلوط ہیں

عُجب کا نتیجہ

 

’’تکبّر‘‘ ایک ایسی نفسانی حالت سے عبارت ہے کہ جس میں  انسان دوسروں  سے خود کو اونچا اور بڑا محسوس کرتا ہے۔ اس کے اثرات وہ اعمال ہیں  کہ جو انسان سے صادر اور عالم خارج میں  ظاہر ہوتے ہیں  کہ جس کے بعد کہا جاتا ہے کہ اس نے تکبر کیا ہے۔ یہ صفت، عجب (خودپسندی) کے علاوہ ہے، بلکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا ہے کہ تکبر کی یہ بری عادت اور رذیلہ صفت، عجب کا ہی نتیجہ ہے۔ اس لیے کہ عجب دراصل خودپسندی ہے اور تکبر دوسرے پر اپنی برتری کا خیال اور بڑا پن ہے۔ انسان جب خود میں  کوئی کمال یا خوبی دیکھتا ہے تو اس میں  ایسی حالت پیدا ہوتی ہے جو عبارت ہے سرور، خوشی اور اترانے سے اور اس حالت کو عجب کہتے ہیں ۔ جب دوسروں  کو اس کمال وخوبی سے خالی گمان کرتا ہے تو اس میں  ایک اور حالت پیدا ہوتی ہے جو دوسروں  پر فوقیت وبرتری اور تقدم حاصل کرنا ہے۔ اسی کیفیت سے بڑے پن، بڑائی اور دوسروں  پر اپنی عظمت کی ایک اور حالت پیدا ہوتی ہے جسے ’’تکبر‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ تمام صفات انسان کے قلب اور باطن میں  نشوونما پاتی ہیں ۔ لیکن ان کے اثرات اس کے بدن اور افعال واقوال میں  مشاہدہ کیے جاتے ہیں ۔ ایسا انسان صرف خودبین اور خودخواہ اور خودپسند ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے خودخواہی میں  اضافہ ہوتا ہے وہ پہلے سے زیادہ خودپسند ہوجاتا ہے اور جب اس کی خودپسندی کا جام کثیف ابل پڑتا ہے تو دوسروں  پر اپنی فوقیت وبرتری کا خیال باطل اس کے ذہن پر سوار ہوجاتا ہے۔

جان لو کہ نفسانی صفات خواہ وہ عیوب، نقائص اور رذائل سے تعلق رکھتی ہوں  یا کمال وفضیلت سے سب بہت باریک اور آپس میں  مخلوط ہیں ۔ اس جہت سے بعض صفات کے درمیان فرق کرنا شکل ہے۔ بعض اوقات ان صفات کو مشخص کرنے میں  علمائے اخلاق کے اقوال میں  شدید علمی اختلافات پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے وجدانی صفت کی اس طرح تعریف بیان نہیں  کی جاسکتی ہے کہ وہ عیب ونقص سے خالی ہو۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ ہم ان امور کو اپنے وجدان پر چھوڑ کر خود کو مفہوم تراشی سے بچائیں  اور اپنے اصلی مقصد ومقصود کی طرف توجہ کریں ۔

پس یہ بھی جاننا چاہیے کہ تکبر کے بہت سے ایسے درجات ہیں  جو عجب کے بارے میں  ذکر کیے گئے درجات سے مشابہہ ہیں۔  بعض ایسے دوسرے درجات ذکر کیے جاتے ہیں  کہ عجب میں  بھی جن کی نظیر ملتی ہے لیکن وہ وہاں  اہم نہیں  تھے لیکن یہاں  اہمیت رکھتے ہیں ۔ لیکن وہ درجات کہ جو عجب کے درجات سے ملتے ہیں ، چھ ہیں :  پہلا درجہ، ایمان اور صحیح عقائد کے بارے میں  تکبر کا درجہ ہے کہ جس کے مقابل کفر اور باطل عقائد کے تکبر کا درجہ ہے۔ تیسرا درجہ، صفات حمیدہ اور اخلاق وملکات فاضلہ کے بارے میں  تکبر سے عبارت ہے کہ جس کے مقابل اخلاق رذیلہ اور بری صفات کے تکبر کا درجہ ہے۔ پانچواں  درجے میں  مناسک، عبادات اور اعمال صالحہ کا تکبر شامل ہے کہ جس کے مقابلے میں  گناہ ومعاصی اور اعمال قبیحہ کے تکبر کا درجہ ہے، اس طرح یہ چھ درجے ہوجاتے ہیں ۔ ان میں  سے ہر ایک کیلئے ممکن ہے کہ وہ درجہ عجب کا ہی نتیجہ ہو جو ہمارے نفس میں  موجود ہے۔

چہل حدیث، ص ۷۹

ای میل کریں