رسول خدا صلی اللہ علیہ کی وفات یا شہادت
خاتم الانبیاء، سید الرسل، نیر اعظم حضرت محمد مصطفی(ص) کی شہادت 28/صفر سن 11/ ھج کو ایک یہودی عورت کے زہر دینے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ شیعوں کے عقیدے کے مطابق 28/ صفر کو اور اہل سنت کے مطابق ربیع الاول میں وفات ہوئی ہے اور عمومی 12/ ربیع الاول ہی کو آپ کی وفات مناتے ہیں جسے بارہ وفات کہتے ہیں لیکن خود تاریخ کے درمیان اختلاف رکھتے ہیں۔
رسولخدا(ص) نے سن 11/ ھج میں آخری سفر حج، مکہ، غدیرخم اور مدینہ میں بیماری سے پہلے اور اس کے بعد اپنے اصحاب کے مجمع میں خطبہ کے دوران کبھی صراحت کے ساتھ تو کبھی بند لفظوں میں اپنی رحلت کی خبر دے چکے تھے۔ جیسا کہ قرآن نے بھی رسولخدا کے ماننے والوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ غذا، لباس، شادی بیاہ، بیماری اور بڑھاپے کے اعتبار سے دیگر انسانوں کی طرح ہیں اور انھی کی طرح رحلت کریں گے۔
رسولخدا(ص) نے اپنی رحلت کے ایک ماہ پہلے ہی بیان فرما دیا تھا کہ میرا فراق نزدیک ہے اور خدا کی جانب بازگشت قریب ہے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر رمی جمرات کرتے وقت فرمایا: تم لوگ اپنے مناسک مجھ سے یاد کر لو شاید اس سال کے بعد دوبارہ حج پر نہ آسکوں اور تم لوگ ہمیں اس جگہ دوبارہ نہ دیکھ پاؤ۔ ایک دن آنحضرت کو خبر دی گئی کہ لوگ آپ کی موت کی خبر سن کر غمگیں اور پریشاں ہیں رسول خدا فضل بن عباس اور علی ابن ابی طالب کی مدد سے مسجد گئے اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ لوگ اپنے پیغمبر کی موت سے پریشان ہوئے۔ کیا مجھ سے پہلے والے پیغمبر کو موت نہیں آتی آگاه رهو میں اپنے رب کی رحمت سے جا ملوں گا اور تم لوگ بھی اپنے رب کی رحمت سے ملحق ہونگے۔
ایک دن پیغمبر(ص)، حضرت علی(ع) اور اپنے کچھ اصحاب کی مدد سے بقیع قبرستان میں گئے اور دوسروں کے لئے طلب مغفرت کی۔ اس کے بعد علی علیہ السلام کی طرف رخ کر کے فرمایا: دنیا کے آبادی خزانوں اور اس میں دائمی زندگی کی چابی میرے اختیار میں دی گئی ہے اور مجھے دنیاوی زندگی اور خدا کی ملاقات کے درمیان اختیار دیا گیا ہے لیکن میں نے خدا کی ملاقات اور لبیک الہی کو ترجیح دی ہے۔
رسولخدا(ص) نے رحلت سے پہلے حضرت علی (ع) سے وصیت فرمائی کہ تم مجھے غسل دینا، کفن پہنانا اور میری نماز جنازہ پڑھانا۔ بہت ساری دلیلوں کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کو زہر سے شہید کیا گیا نہ بیماری کی وجہ سے آپ کی وفات ہوئی ہے؛ کیونکہ آپ نے عائشہ سے مسلسل فرمایا ہے کہ زہر آلود غذا کا درد محسوس کر رہا ہوں اور یہ اہلسنت کی معتبر کتابوں میں مذکور ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی متعدد روایات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی شہادت ہوئی ہے اور زہر دینے کی وجہ سے ہوئی ہے اور آپ کے مسموم ہونے کا زمانہ جنگ خیبر کا زمانہ ہے اور اسی وقت آپ کو ایک یہودی عورت کے توسط زہر دیا گیا تھا۔
حضرت محمد بن عبدالله(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اورآپ کے دو نور عین ؛ امام حسن مجتبی اورحضرت علی بن موسی الرضا علیہما السلام کی شہادت کے سلسلے میں حضرت حجة بن الحسن المهدی(ع) اورآپ تمام شيعيان کی خدمت میں تسلیت اور تعزیت عرض کرتے ہیں. اسی مناسبت سے ان معصومين(عليهم السّلام) کے چند گہربار کلمات عرض خدمت ہیں
قَالَ رَسُولُ اللهِ(ص): «أَحَبُّ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى اللهِ تَعَالَى مَنْ نَصَبَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللهِ وَ نَصَحَ لِأُمَّةِ نَبِيِّهِ وَ تَفَكَّرَ فِي عُيُوبِهِ وَ أَصْلَحَهَا وَ عَلِمَ فَعَمِلَ وَ عَلَّم» (إرشاد القلوب إلى الصواب1: 14)
حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا: خداوند متعالی کے نزدیک مومین میں سے سب سے زیادہ پسندیدہ وہ ہے جو اپنے نفس کو خدا کی اطاعت پر گامزن کرے اور اپنے پيغمبر کی امت کو وعظ و نصیحت کرے اور اپنے عيب کے بارے میں غور و فکر کرکے ان کی اصلاح كرے اور علم حاصل کرے پھر اس پر عمل کرے اور دوسروں کو سیکھائے«.
إِنَّ لِلهِ تَعَالَى خَوَاصّاً مِنْ خَلْقِهِ يُسْكِنُهُمُ الرَّفِيعَ الْأَعْلَى مِنْ جَنَّاتِهِ لِأَنَّهُمْ كَانُوا أَعْقَلَ أَهْلِ الدُّنْيَا.
قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ! كَيْفَ كَانُوا أَعْقَلَ أَهْلِ الدُّنْيَا؟
قَالَ: كَانَتْ هِمَّتُهُمُ الْمُسَارَعَةَ إِلَى رَبِّهِمْ فِيمَا يُرْضِيهِ فَهَانَتِ الدُّنْيَا عَلَيْهِمْ وَ لَمْ يَرْغَبُوا فِي فُضُولِهَا صَبَرُوا قَلِيلًا فَاسْتَرَاحُوا طَوِيلا»؛(مجموعة ورام2: 214)
پيامبر اکرم (ص) نے فرمایا:یقیناتمام مخلوقات میں سے خداوند متعالی کے لئے کچھ خاص بندے ہیں جن کو بہشت کے بلند درجات میں جگہ دے دیتا ہے،کیونکہ یہ دنیا کے خردمندترين افراد میں سے ہیں.
عرض ہوا: یا رسول اللہ!یہ لوگ کیسے دنیا کے عاقل ترین افراد میں سے ہیں ؟
آپ (ص) نے فرمایا:ان کی همت اورهدف ؛بہت جلدی سے اس چیز کی طرف جانا ہے جس میں خدا کی رضا اور خوشنودی ہو. اسی وجہ سے دنیا ان کی نظروں میں پست اور حقیر ہے دنیا کی زیادہ طلبی کی خواہش نہیں رکھتے اور مختصر پر صبر کرتے ہیں اور درحقیقت طولانی اور دراز مدت آسایش کو یہ افراد پا چکے ہیں۔
رسولخدا(ص) کی رحلت کے چند دنوں پہلے اپنے نماز کے بعد مسجد میں فرمایا: اے لوگو! فتنوں کی آگ بھڑک چکی ہے اور فتنے تاریک رات کی امواج کے ٹکڑوں کی طرح رخ کرچکے ہیں۔ میں قیامت کے دن تم لوگوں کے آگے آگے ہو اور تم لوگ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو گے۔ جان لو کہ میں تم لوگوں سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا پس غور کرو کہ تم لوگ میرے بعد اس کے ساتھ کیا سلوک کرو گے۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے اس کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے ان دونوں کو تمہارے درمیان چھوڑا ہے (کتاب خدا اور اہلبیت) ان پر سبقت نہ کرنا ورنہ بکھر جاؤ گے اور ان کے بارے میں کوتاہی نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔ اس کے بعد بڑی مشکل سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔