بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے انقلاب میں، خواہ وہ اس کا معرض وجود میں آنے کا مرحلہ ہو یا معرض وجود میں آ جانے کے بعد آگے بڑھنے اور جاری رہنے کی منزل، عورتوں کے کردار کو اسی طرح اسلامی معاشرے کے ارتقاء اور اس میں اسلامی و انقلابی بالغ نظری پیدا کرنے کے عمل میں عورت کے مقام کو انتہائی عظیم قرار دیا ہے، اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ ایرانی عورت اور مسلم خاتون مغرب کی خانماں سوز ثقافت کی جگہ جگہ موجود کمند اور جگہ جگہ بچھے جال سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی مجاہدت کو پختہ ارادے کے ساتھ جاری رکھے اور کسی بھی صورت میں ان کے دام میں نہ پھنسے جنہوں نے عورت کو اپنی تباہ کن پالیسیوں اور توسیع پسندانہ اہداف کے لئے حربے کے طور پر استعمال کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ اس کے لئے دانشمندانہ باریک بینی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے عورت کی سیاسی، سماجی، فنی اور ثقافتی شناخت اور منزلت کو سیاسی اور شخصی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے ذریعے اور حربے کی سطح تک عورت کی تنزلی اور انحطاط سے الگ کیا جا سکتے اور دونوں کے فرق کو پہچانا جا سکے۔ اس پستی اور ہر آگاہ و بیدار اور حریت پسند انسان کے مرغوب و پسندیدہ مقام و منزلت کے درمیان خلط ملط پیدا نہ ہو۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ایرانی معاشرے میں خواتین کو کہ جو ملک میں تعداد کے اعتبار سے کل آبادی کا نصف ہیں اور حساس مواقع اور نازک موڑ پر افادیت کے لحاظ سے آدھی آبادی سے زیادہ کا کردار ادا کرتی ہیں (کیونکہ جب ماں اور بیوی کی حیثیت سے وہ میدان عمل میں آتی ہیں تو بچوں اور شوہر پر اپنے خاص اثر و نفوذ کی وجہ سے انہیں بھی اپنے ساتھ میدان میں لاتی ہیں) ان کا حقیقی مقام اور شناخت حاصل ہو۔ فرضی اور مسلط کردہ شناخت نہیں بلکہ وہی حقیقی شناخت جو نظر انداز کر دی گئی ہے اور مختلف پردوں کے نیچے دب کر رہ گئی ہے۔ آپ کی تاکید تھی کہ یہ شناخت نمایاں ہو اور ہمیشہ سب کی خاص طور پر خود خواتین کی نظروں کے سامنے رہے۔ جو درخشاں حقیقت ہے وہ انہیں باور کرائی جائے۔