حضرت زینب کبری (س) "عقیلہ بنی ہاشم" جو کہ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب (س) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی تیسری اولاد ہیں، جمادی الاولی کی پانچویں تاریخ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں۔
متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب (س) کا نام پیغمبر اسلام (ص) نے رکھا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جبرائیل نے یہ نام خدا کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیا تھا۔ جب پیغمبر اسلام (ص) نے زینب کو طلب کیا تو آپ نے اسے بوسہ دیا اور فرمایا: "میں اپنی امت کے حاضر و غائب کو حکم دیتا ہوں کہ اس لڑکی کی حرمت کا خیال رکھیں، بیشک یہ خدیجہ کبریٰ (س) کی طرح ہیں۔"
اس لیے کہ آپ نے اپنی زندگی میں بہت سی مصائب دیکھے (اپنے نانا رسول اللہ (ص) کی وفات، والدہ محترمہ کی شہادت و مشکلات، اپنے والد امیر المومنین (ع) کی شہادت، اپنے بھائی امام حسن مجتبی (ع) کی شہادت، سانحہ کربلا اور آپ کے بھائی امام حسین (ع) اور ان کے دو فرزندوں، دیگر رشتہ داروں اور دیگر شہداء کی شہادت اور کوفہ و شام میں اسیری میں جانے) آپ کو امّ المصائب کہا جاتا ہے۔
حضرت زینب (س) نے عبداللہ بن جعفر طیار سے شادی کی اور ان سے چار بیٹے پیدا ہوئے۔ علی، عون، عباس، محمد؛ اور ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ام کلثوم تھا، عون اور محمد واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔
کوفہ اور یزید کے دربار میں ان کی تقریریں اور خطبات جو قرآن کی آیات پر مبنی دلائل کے ساتھ تھے، آپ کی معرفت و بصیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے حضرت علی (ع) اور ان کی والدہ حضرت زہرا (س) سے احادیث نقل کی ہیں۔ محمد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین وغیرہ نے ان سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ حضرت زینب (س) کوفہ میں امیر المومنین علی (س) کی موجودگی میں وہاں کی عورتوں کے لیے قرآن کی تفسیر دیتی تھیں۔
ان کے حجاب اور عفت کے بارے میں تاریخ میں کہا گیا ہے: "جب زینب (س) نے رسولخدا (ص) کی قبر کی زیارت کے لئے مسجد نبوی میں جانا چاہتی تھیں تو علی (ع) نے انہیں رات کو جانے کا حکم دیا۔ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے فرماتے تھے کہ وہ اپنی بہن کے ساتھ چلیں، امام حسن (ع) آگے تھے اور امام حسین (ع) پیچھے چلتے تھے، زینب (س) درمیان میں تھیں۔ امام المتقین علی (ع) نے حکم دیا تھا کہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چراغ کو بھی بجھا دیں تاکہ نامحرم شخص کی آنکھیں حضرت زینب علیہا السلام کا سایہ بھی نہ دیکھے۔
آپ نے 57 سال کی عمر میں کربلا کے مصائب اور بیماری کی وجہ سے اسیری کے مصائب برداشت کرنے کے بعد 15 رجب 62 ہجری کو وفات پائی۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تدفین کے بارے میں تین قول ہیں۔ مدینہ کے قبرستان بقیع، قاہرہ مصر اور دمشق کو اس خاتون کی تدفین کی جگہ کے طور پر بہت سے شواہد کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، لیکن تاریخی شواہد اور دستاویزات کے مطابق شام کے قول میں تسلی بخش ثبوتیں موجود ہیں۔