علامہ حسن زادہ آملی

علامہ حسن زادہ آملی کا انتقال پرملال

حسن زادہ کو سوائے امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے کسی نے درک نہیں کیا

علامہ حسن زادہ آملی کا انتقال پرملال

 

ابنا۔ علامہ حسن زادہ آملی ابھی کچھ دیر قبل 92 سال کی عمر میں دارفانی کو الوداع کہتے ہوئے دار ابدی کی طرف چل بسے۔

مرحوم کو آج صبح (25 ستمبر 2021) شہر آمل کے ہسپتال امام رضا (ع) میں بھرتی کیا گیا تھا لیکن افسوس کے ساتھ جانبر نہیں ہو سکتے اور شام کے وقت اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔

یہ ممتاز اور عالمی شہرت یافتہ عالم دین، کئی علوم منجملہ ادبیات، ریاضیات، علوم فلکی، علم طب کے علاوہ عرفان اور فلسفے میں مکمل مہارت رکھتے تھے۔

 

آیت اللہ حسن زادہ آملی کون تھے؟

استاد علامه حضرت آیت الله حسن زاده آملى ماہر علوم عقلیه و نقلیه، صاحب علم و عمل، شاخص عظیم تحقیق و تفکیر، حِبر فاخر و بحر زاخر، عَلَم علم و عمل، عالم به ریاضیات عالیه از جمله هیئت و حساب و هندسه، عالم به علوم غریبه ،متحقق به حقائق الهیه و اسرار سبحانیه، مفسّر تفسیر انفسى قرآن فرقان،معلم اخلاق و عرفان،فقیہ زمان،

فیلسوف دوراں،حکیم متاله،عارف سالک،شاعر و ادیب متبحر،جناب حسن بن عبدالله طبرى آملى(حفظه الله تعالى) کہ جو " حسن زاده" کے نام سے مشہور ہیں۔

ان کی عظمت کے لیے بس یہی جملہ کافی ہے کہ جو انکے استاد جلیل القدر و عظیم المرتبہ حضرت آیت اللہ علامہ طباطبائی نے انکے بارے میں فرمایا :

حسن زادہ کو سوائے امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے کسی نے درک نہیں کیا۔

آپ نے ۱۳۴۷ھ قمری مطابق ۱۹۲۹ء میں ابرا میں (جو شھر لاریجان آمل میں واقع ہے) آنکھ کھولی ۔ آپ کا اصلی نام حسن بن عبد اللہ طبری آملی ہے اور حسن زادہ آپکی عرفیت ہے ۔ حوزہ کے مقدماتی علوم اور ان علوم کو جو طلاب کے درمیان رائج ہیں آمل کی جامع مسجد میں حاصل کیا۔ اس عرصہ میں جو چھ سال کا تھا آپ نے آیة اللہ مرزا ابوالقاسم فرسیو، آیة اللہ غروی ، شیخ احمد اعتمادی ، شیخ ابو القاسم رجائی لتیکوھی، شیخ عزیز اللہ طبرسی اور مرحوم عبداللہ اشراقی سے کسب فیض کیا ۔ اسکے بعد ۲۲ سال کی عمر میں تہران تشریف لے گئے اور متعدد آیات عظام مرزا ابوالحسن شعرانی ، جناب مرزا مھدی الھی قمشہ ای ، جناب شیخ محمد تقی آملی ، میرزا ابوالحسن رفیعی قزوینی ، شیخ محمد حسین فاضل تونی ،مرزا احمد آشتیانی اور سید احمد لواسانی کے محضر مبارک میں زانوئے تلمذ اختیار کیا ۔ ۱۳۴۲ ھ ش میں قم تشریف لائے اور علامہ سید محمد حسین طباطبائی اور انکے بھائی سید حسن طباطبائی اور سید مھدی قاضی طباطبائی سے مستفیض ہوئے اور اسی وقت سے حوزہ علمیہ قم میں درس و تدریس و بحث و تحقیق وغیرہ میں مشغول رہے۔ آپ کی پہلی کتاب "" تصحیح و اعراب گذاری ونصاب الصبیان "" ہے ۔ آپ سے متعلق کتابوں کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ تالیف مستقل ، شرح ، حواشی و تعلیقات، دوسروں کی کتابوں و رسالوں کی تصحیح ۔

 علامہ حسن زادہ آملی فقہ، فلسفہ، اخلاق، عرفان، حکمت دینی، علم کلام، ریاضیات، نجوم، عربی اور فارسی ادب،ادبیات عرب، علوم طبیعی، طب قدیم، علوم غریبہ و باطنی جیسے علوم و موضوعات پر صاحب تصنیف ہیں۔ البتہ ان کی زیادہ تر تالیفات و افکار قرآنی مرکزیت و محوریت کے ساتھ فلسفہ و عرفان سے تعلق رکھتی ہیں۔

رھبر معظم کے بارے علامہ حسن زادہ کا کا قول مشہور ہے کہ :

اپنے کانوں کو رھبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے فرمودات کی جانب رکھیں کیونکہ رہبر معظم کے کان امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے فرمودات کی جانب ہیں۔

آیت الله حسن زاده انقلاب اسلامی کے بارے میں ایک عرفانی تعبیر استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں انقلاب اسلامی ظہور صغری ہے یعنی انقلاب اسلامی امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا مقدمہ ہے۔

ای میل کریں