اور تم کیا جانو ولایتِ فقیہ کیا ہے؟
تحریر: سید محمد علی نقوی
ولایتِ فقیہ درحقیقت ولایتِ علیؑ کا تسلسل ہے، کیونکہ فقیہ کو یہ ولایت خود آئمہؑ کی ہی عطاء کردہ ہے۔ سب سے پہلے ہم ولایتِ فقیہ کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ پیش کریں گے، تاکہ اس کا اصل مفہوم ذہن میں منعکس ہوسکے۔
ولایت: اسکے دو معنیٰ ہیں:
1۔ قُرب: اسی لیے میت کا ولی اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
2۔ تدبیر و قدرت: میت کا ولی جہاں میت کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، وہیں اس کے احکامِ تکفین و تدفین کے متعلق بھی تدبیر و فیصلہ کرنے کا زیادہ حقدار ہوتا ہے۔
فقیہ: لغت میں فِقہ کا معنیٰ فہم کا ہے اور علوم میں علمِ شریعت کیساتھ خاص ہے، لہذا علمِ فقہ کو علمِ شریعت بھی کہا جاتا ہے۔ اسی بنا پر ہر وہ شخص جو علمِ شریعت کا عالِم ہو اسے فقیہ کہتے ہیں۔
ولایتِ فقیہ: مذکورہ تمام معانی کی روشنی میں ولایتِ فقیہ کا بالعموم معنیٰ یہ ہے کہ اسلام نے فقیہ کو ایک قسم کی قانونی تدبیر اور شرعی قدرت عطا کی ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کے عمومی امور کی زمام سنبھالتا ہے۔
يسئلونك عن الولي لأكرم بركات، ص٧-٨
ولایتِ فقیہ اور ولایتِ امامؑ میں فرق:
امام خمینیؒ فرماتے ہیں: کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ فقیہ کو عطا کردہ ولایت کی یہ اہلیت اسے نبوت یا امامت کی منزلت تک بلند کر دے گی، کیونکہ ہماری یہ گفتگو مرتبہ و منزلت کے گرد نہیں بلکہ صرف عملی وظیفے کے گرد استوار ہے۔(الحكومة الإسلامية، ص٥٣) لہذا ولایتِ فقیہ ہرگز ولایتِ امامؑ کے مقابل میں نہیں۔ اسی لیے امام خمینیؒ اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: "ہماری ضروریاتِ مذہب میں سے ہے کہ ہمارے آئمہؑ کو وہ مقام حاصل ہے، جو نہ تو کسی مقرّب فرشتے کو حاصل ہے اور نہ ہی (رسول اللہؐ کے سوا) اور کسی نبی مرسلؑ کو(الحكومة الإسلامية، ص٥٦)
ایک سوال:
علماء قدیم و حدیث نے ولایتِ فقیہ کو ایک بدیہی مسئلہ گردانا ہے کہ اگر عام انسان بھی اس معاملے میں تھوڑا سا تدبّر کرے تو اس کی عقلِ سلیم اس مسئلے کو تسلیم کرنے کا حکم دے گی۔ اگر ہم ولایتِ فقیہ کو تسلیم نہ کریں تو ایک سوال جنم لے گا، جو شیعوں کی بنیادیں متزلزل کر دے گا اور وہ سوال یہ ہے کہ؛
سوال: جب رسول اللہؐ اس دار فانی سے پردہ فرماتے وقت اسلام کو لاوارث اور بغیر قائد و رہبر کے نہیں چھوڑ کر گئے تو کیسے امام مہدیؑ غیبتِ کُبریٰ میں جاتے وقت اسی اسلام کو بغیر وارث و رہبر کے چھوڑ کر چلے گئے جبکہ وہ جانتے بھی تھے کہ غیبت بہت طولانی ہو جائے گی اور اس کے اختتام کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہ ہوگا؟ لہذا یا تو وقتِ رحلت رسول اللہؐ کا اسلام کو بغیر وارث و رہبر چھوڑ جانا قبول کریں یا پھر امام مہدیؑ کا بھی غیبتِ کبریٰ میں جاتے وقت نظامِ رہبریت دیکر جانا قبول کریں۔
جواب: رسول اللہؐ کا امت کو بغیر وارث کے چھوڑ جانا شیعت کا عقیدہ نہیں اور یقیناً امام مہدیؑ جانتے تھے کہ غیبتِ کبریٰ کا آغاز ہونے والا ہے، جس کا دورانیہ بہت طولانی ہوگا اور اسی لیے آپؑ اس امت کو وہ نظام دیکر گئے، جس کے تحت عوام الناس اپنے عام امور میں ایک ولی فقیہ کی طرف رجوع کرے اور وہ ولی فقیہ لوگوں کے دینی مسائل کیساتھ ساتھ سیاسی مسائل بھی حل کرے، قیادت کی زمام سنبھالے اور یہی ولی فقیہ لوگوں پر امام مہدیؑ کی طرف سے حجت ہو۔ اسی نظام کو ثابت کرنے کیلئے ہم آپکے سامنے کچھ روایات پیش خدمت کرتے ہیں۔
روایات سے استدلال:
1۔ ایک صحیح السند اور مشہور روایت ہے کہ امام مہدیؑ نے اپنے دوسرے نائبِ خاص محمد بن عثمان عمریؒ کو ایک توقیع میں ارشاد فرمایا: "اَما جو حوادث رونما ہوں تو آپ لوگ ان میں ہماری حدیث کے راویوں کی طرف رجوع کریں۔ وہ میری طرف سے تم لوگوں پر حجت ہیں اور میں اللہ کی طرف سے حجت ہوں۔ (كمال الدين و تمام النعمة، ص٤٨٤) مذکورہ حدیث کی دلالت: ۱۔ حوادث سے مراد فقہی احکام نہیں کیونکہ وہ لوگ جو دور دراز علاقوں میں رہا کرتے تھے، جیسے مصر وغیرہ تو وہ لوگ گذشتہ آئمہؑ کے دور میں بھی بحکمِ آئمہؑ ان معاملات میں فقہاء سے فقہی مسائل پوچھا کرتے تھے اور اس روش سے آگاہ تھے، لہذا امام مہدیؑ کی حوادث سے مراد فقہی مسائل نہیں بلکہ روزمرہ کے عام امور ہیں۔ پس جو ان امور کو چلاتا ہے، وہ قائد و رہبر ہوتا ہے اور ولایت فقیہ میں ولی فقیہ کی بھی یہی ذمہ داری ہے۔
۲۔امامؑ نے توقیع میں فرمایا کہ وہ میری طرف سے تم لوگوں پر حجت ہیں اور امام معصومؑ کے حکم کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ امامؑ کے یہ کلمات نیابتِ عامہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لہذا جیسے امام معصومؑ لوگوں کے امور چلانے میں خدا کی طرف سے ہم پر حجت ہیں، فقیہ بھی ان امور کو چلانے میں ہم پر امامؑ کی طرف سے حجت ہے۔ جو کسی کی نیابت میں امور چلائے وہ اس کا جانشین ہوتا ہے، گویا امامؑ نے اپنی توقیع میں ہمیں ایک ضابطہ دے دیا، جس کے تحت ہمیں جانشین کا تعیّن بھی ہوگیا، جو کہ حدیث کے راوی (فقہاء) ہیں اور دوسرا ان جانشین کا لوگوں پر اختیار بھی معیّن کر دیا کہ وہ امامؑ کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں۔ پس ایک فقیہ کا فریضہ وہی ہوا، جو امام معصومؑ کا فریضہ ہے اور کوئی فقیہ اس فریضے کو کیسے بطور اَحسن چلا سکتا ہے، اگر فقیہ کے اختیار میں لوگوں کے امور چلانا ہی نہ ہوں۔؟
2۔ ایک اور صحیح السند اور مشہور روایت آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں۔ "امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: پروردگار! میرے خلفاء پر رحم فرما۔ پوچھا گیا: یارسول اللہؐ! آپ کے خلفاء کون ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: وہ لوگ جو میرے بعد آئیں گے اور مجھ سے میری حدیث و سنت نقل کریں گے۔ (من لا يحضره الفقيه، ج٤، ص٤٢٠)
مذکورہ حدیث کے متعلق آپکے تین سوالات:
س۱۔* کیا خلافت سے مراد احادیث و سنت نبیؐ نقل کرنا نہیں، نہ کہ حکومت کرنا؟
س۲۔* کیا یہ روایت آئمہؑ کے ساتھ خاص نہیں کہ نبیؐ کے خلفاء وہ ہیں؟
س۳۔* کیا یہ احتمال نہیں کہ یہ روایت، راوی اور محدِّث کیساتھ خاص ہے، نہ کہ فقیہ کیساتھ؟
ان سوالات کے متعلق امام خمینیؒ کے جوابات:
*ج۱۔* "خلافت سے مراد احادیث و سنت نقل کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا، کیونکہ رسول اللہؐ اپنی روایات کے راوی نہیں تھے کہ فقہاء اس چیز میں نبیؐ کے قائم مقام خلیفہ بنیں۔
*ج۲۔* یہ وہم کیا گیا ہے کہ خلفاء سے مراد آئمہ معصومینؑ ہیں جبکہ آئمہؑ کے متعلق (نبیؑ کا) حدیث کے راویوں والی تعبیر استعمال کرنا غیر مناسب ہے، کیونکہ آئمہؑ خود علمِ الہیٰ کے خزانچی ہیں (نہ کہ فقط راوئِ حدیث)۔
*ج۳۔* اس بنا پر کہ راوی (جو فقیہ نہ ہو اور اس سے مراد صرف روایت نقل کرنے والا لیا جائے تو ایسے شخص) کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ یہ جان سکے کہ جو روایت اس نے نقل کی ہے، وہ سنتِ نبیؐ ہے یا نہیں۔ (تاب البيع للإمام الخميني، ص٤٦٨-٤٦٩) رسول اللہؐ کے قول و فعل و تقریر کو سنت کہتے ہیں۔ کوئی روایت آیا واقعاً سنت ہے یا نہیں، اس کو پرکھنے کیلئے خاص قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ آیا اس کی تشخیص و تمییز کرنا ایک فقیہ کی ذمہ داری نہیں؟ اس کی تشخیص و تمییز کرنا بالکل فقیہ کی ہی ذمہ داری ہے۔ وہی تو ہے جو سنت کو صحیح اصولوں پر پرکھ کر فتاویٰ کی صورت میں ہمیں ایک نتیجہ دیتا ہے۔
ولایت فقیہ پر عقلی دلیل:
*۱.* اسلام حکومت طلب دین ہے۔ *۲.* حکومت ایک فقیہ حاکم کی محتاج ہے، جو عادل ہو۔ *۳.* لہذا اگر یہ فقیہ اس امت کو کوئی حکم دے تو امت پر اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ *٤.* پس فقیہ کے پاس امت کے امور چلانے کیلئے ولایت ہونی چاہیئے، تاکہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔
ولایتِ فقیہ کے قائل علماء قدیم و جدید:
ولایتِ فقیہ کا مسئلہ جدید نہیں بلکہ انتہائی قدیم علماء بھی اس کے قائل تھے۔ ہم اختصار کی خاطر چند علماء کے اسمائے گرامی اور ان کی کتابوں کے حوالہ جات کہ جہاں انہوں نے فقیہ کے پاس ولایت ہونے کو قبول کیا ہے، ذکر کریں گے۔ ان کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ شیخ مفیدؒ متوفّی ٤۱۳ھ، المقنعة، ص٨١٠
2۔ شیخ طوسیؒ متوفّی ٤٦٠ھ، الخلاف، ج٦، ص٢٣٦
3۔ علامہ حلیؒ متوفّی ٧٢٦ھ، تذكرة الفقهاء، ج١، ص٢٥١
4۔ شہید اول محمد بن مکیؒ متوفّی ٨٧٦ھ، الدروس الشرعية، ج٢، ص٤٧
5۔ شہید ثانی زین الدین بن علیؒ متوفّی ٩٦٥ھ، مسالك الأفهام، ج٦، ص٢٦٥
6۔ احمد مقدس اردبیلیؒ متوفّی ٩٩٣ھ، مجمع الفائدة، ج٩، ص٢٣٠
7. آیت اللہ شوستریؒ متوفّی ١٠١٩ھ، شرح إحقاق الحق للمرعشي النجفي، ج٢٩، ص١١١
8۔ سید علی طباطبائیؒ متوفّی ١٢٣١ھ، رياض المسائل، ج١٢، ص٢٧٦
9۔حسن نجفیؒ متوفّی ١٢٦٦ھ، جواهر الكلام، ج٢١، ص٣٩٧
10۔ آیت اللہ حسین بروجردیؒ متوفّی ١٣٨٣ھ، دراسات في ولاية الفقيه وفق الدولة الإسلامية، ج١، ص٤٥٩
11۔ علامہ محمد حسین طباطبائی متوفّی ١٤٠٢ھ، تفسير الميزان، ج٦، ص٤٨
12۔ آیت اللہ تقی بہجتؒ متوفّی ١٤٣٠ھ، بیرسخ شما و باسخ ھای آیت اللہ العظمی بہجت، ص٧٤-٧٦
13۔ آیت اللہ سیستانی، يسألونك عن الولي لأكرم بركات، ص٨٠
14۔ آیت اللہ جوادی آملی، ولايت فقيه و ولايت فقاهت و عدالة، ص٣٨-٣٩
اسکے علاوہ اور بھی متعدد مشہور علماء قدیم و جدید ہیں، جو ولایتِ فقیہ کے قائل ہیں، مگر ہم اختصار کی خاطر ان کو اس مورد میں ذکر نہیں کر رہے۔
ولایت فقیہ فقہی معاملہ ہے یا کلامی؟:
ولایتِ فقیہ فقہی معاملہ ہے اور علمِ کلام کی بحث سے خارج ہے، کیونکہ یہ بلا واسطہ قرآن کریم سے ثابت نہیں اور ہمارا محور و مرکز قرآن کریم ہے، اسی لیے یہ مندرجہ ذیل پانچ اقسام میں سے کسی میں بھی شمار نہیں:
*1۔* اصولِ دین. *2۔* ضروریاتِ دین. *3۔* اصولِ مذہب. *4۔* فروعِ مذہب. *5۔* فروع بغیر ضروریات کے۔ (ہم نے اختصار کی خاطر ان پانچ قسموں کو بغیر وضاحت کے بیان کرتے ہوئے صرف نام پر ہی اکتفا کیا ہے، لیکن کبھی آئندہ تحریر میں ہم انہیں مستقل بحث کے طور پر بیان کریں گے)
نتیجہ:
چونکہ ولایتِ فقیہ ان پانچوں اقسام میں شامل نہیں، اسی لیے ولایتِ فقیہ کا انکار کرنے والا نہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے کہ کافر قرار پائے اور نہ ہی مذہبِ شیعہ سے کہ مرتد ہو جائے، جیسے اگر کوئی شخص نماز و روزہ کہ جس کے انجام دینے کا حکم خدا نے دیا ہے، بجا نہ لائے تو وہ گناہگار ضرور ہوگا، چونکہ اس نے فعلِ حرام کا ارتکاب کیا ہے، لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، پس اسی طرح ولایتِ فقیہ کا انکار کرنے سے کفر و ارتداد تو ثابت نہیں ہوتا لیکن اس کی مخالفت کرنا یقیناً استعماری سوچ، سازش اور فتنہ ہے۔ زیادہ تر وہ لوگ ولایتِ فقیہ کا انکار کرتے ہیں، جن کا تعلق نصیریت سے ہے۔ نصیری نہ تو مولا علیؑ کیساتھ مخلص ہے اور نہ ہی مولا علیؑ کے خدا کیساتھ، پھر کیونکر وہ مولا علیؑ کے بیٹے (سید علی خامنہ ای) اور دیگر فقہاء و مراجع عظام کیساتھ مخلص ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص جاہل حکمرانوں کی حکومت و رہبریت کو قبول کرسکتا ہے تو ایک عادل و عالِم فقیہ کی حکومت و رہبریت کیوں نہیں؟ "هَلْ يَسْتَوِى الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟(سورة الزمر/9)