مٹ گئے آلِ محمد کو مٹانے والے

مٹ گئے آلِ محمد کو مٹانے والے

کربلا کو عام کرنے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ آج بھی کون غالب ہے۔؟ حسینیت اور یزیدیت کے درمیان صدیوں سے جاری معرکہ کس حقیقیت کی گواہی دے رہا ہے؟

مٹ گئے آلِ محمد کو مٹانے والے

 

تحریر: سویرا بتول

ماہ ایامِ عزاء میں وطن ِعزیز میں شہر شہر، نگر نگر ذکرِ سید الشہداء بھرپور جوش و خروش سے برپا کیا گیا۔ کربلا والوں کی یاد میں عزادارانِ حسین ابن علی حسینیت کے مبلغ بن کر سڑکوں پر آئے اور ہر انسان نے اپنے اپنے انداز میں سید الشہداء کو خراجِ عقیدت پیش کیا، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ اُن پر ایف آئی آر کاٹی جائیں گی، جلوس کو روکنے کی سازشیں کی جائیں گی، جلوسِ عزاء پر پتھراؤ کیا جائے گا یا بہاولنگر میں دھماکہ کرکے عزاداری کو روکنے کی سازش کی جائے گی۔ مومن کے لیے اس سے بڑی کوئی بشارت نہیں ہے کہ وہ حسین علیہ السلام کی محبت میں مارا جائے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے سفاک اور قاتل حکمران اُس دور میں ہمیں نہ جھکا سکے تو یہ آج کے مٹھی بھر یزید و شمر صفت لوگ ہم حسینیوں کو کیسے مٹا سکتے ہیں۔؟ ذکرِ حسین ہمیشہ رہے گا اور یہ وعدہ الہیٰ ہے کہ حسین علیہ السلام ہم نے آپ کے ذکر کو قیامت تک کے لیے بلند کر دیا، اب جب تک ذکرِ خدا ہے، اُس وقت تک حسین علیہ السلام کا ذکر ہے۔

اے کرب و بلا خوش ہو نئی نسل نے اب کے

خود اپنے لہو سے تیری تاریخ لکھی ہے

 

ہم ہر سال حسین ابنِ علی کا ذکر برپا کرکے یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسین علیہ السلام کسی ایک گروہ کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کی میراث ہیں۔ جہاں مظلومیت ہے، وہاں وہاں حسینیت ہے۔ جہاں جہاں مظلوم ظالموں سے بر سر پیکار ہیں، وہاں وہاں حسینیت انہیں جوش و ولولہ دیتی ہے۔ یہ جتنی بھی استعماری ایجنٹ ہیں، جتنی بھی سامراجی قوتیں ہیں، یہ اگر خوف زدہ ہیں تو کربلا سے، انہیں خوف ہے تو فقط حسینیت سے، اس لیے ہم ہر سال جلوس عزاء نکال کر، ذکرِ سبطِ پیغمبر برپا کرکے یہ پیغام دیتے ہیں کہ حسین علیہ السلام کسی ایک مکتب کے نہیں ہیں بلکہ حسین ابن علی کا پیغامِ حریت ہر دور کے ہر انسان کے لیے ہے۔ جہاں جہاں مظلوم ظالموں سے برسرِ پیکار ہیں، وہاں وہاں کربلا کا پیغام پہنچایا جائے، چاہے اس کے لیے ہمیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، چاہے سولی پر لٹکائے جائیں یا جلوس پر دھماکے کیے جائیں، مگر ایک لمحے کے لیے بھی کربلا کو فراموش نہ ہونے دینا۔

 

کربلا کو عام کرنے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ آج بھی کون غالب ہے۔؟ حسینیت اور یزیدیت کے درمیان صدیوں سے جاری معرکہ کس حقیقیت کی گواہی دے رہا ہے؟ اگر کربلا کا معرکہ ایک روز میں ختم ہوگیا ہوتا تو آج حسینیت کے خلاف یہ آوازیں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ یہ کس کے ذکر کو روکنے کی ناکام کوششیں کی جا رہی ہیں؟ یہ خوف و ہراس کی فضا کیوں قائم کی جا رہی ہے؟ حسینیت کی سرزمین پر یزید زندہ باد کے نعرے، جلوسِ عزاء پہ ایف آئی آر کاٹنا اور بہاولنگر میں دھماکے جیسے کمزر حربے استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ کربلا کے بہتر کا معرکہ آج تک جاری ہے اور کربلا کے بہتر آج تک غالب ہیں۔ یزیدِ ِوقت آج بھی ذکرِ سید الشہداء علیہ سلام سے خوف زدہ ہے۔

 

اے سرزمینِ کربلا یاد رکھنا!!!

تم نے اپنا خون دیا تھا

جب کربلائے عصر کے ہنگام میں

لہو دینے کا وقت آیا تو ہم بھی پیچھے نہیں رہے

وہ مکتب جو کربلا میں پوری آب و تاب سے چمکا

اور جس کے ماننے والے آج بھی حسین کی انکارِ بیعت پر قائم ہیں

اس خون کی ہولی میں ہم بھی پیچھے نہیں رہے

اے سرزمینِ کربلا یاد رکھنا!!!

 

اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں اور  اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ دہشت گردی کی اِن کمزور کارروائیوں سے حسین ابن علی کی مجلسوں اور جلوسوں پر اثر پڑے گا تو یاد رکھیے کہ عزادارانِ مظلومِ کربلا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر مجالسِ عزاء کو رونق بخشیں گے۔ بہاولنگر جیسے سانحات عام دہشتگردی نہیں بلکہ ملک بھر میں بالخصوص پنجاب میں سرکاری اہلکاروں کی طرف سے عزاداری کے خلاف کھلی زیادتیوں اور قدغنوں کا تسلسل ہے۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تکفیریوں کو باقاعدہ طور پر استعمال کیا گیا، تاکہ عزاداروں میں خوف و ہراس پیدا کرکے عزاداری کو مزید محدود کیا جائے۔ کبھی جلوس عزاء پر پتھراؤ، کبھی یزید زندہ باد کے نعرے اور کبھی مرکزی جلوس پر بلاسٹ اور کبھی مومنین پر بلا جواز ایف آئی آر درج کرنا، مراسمِ اعزاداری کو یرغمال بنانے کے مترادف ہے۔ دنیا یاد رکھے کہ لاشیں دینے سے قومیں مرا نہیں کرتیں بلکہ شہید دینے سے قومیں زندہ ہوا کرتی ہیں۔

 

ہر سانحہ کے بعد ہمارا جوش و خروش مزید بڑھتا ہے، ہم اپنے پیاروں کا غم بھول کر کربلا والوں کا غم برپا کرتے ہیں۔ ہمارے بوڑھے اپنے جوانوں کی لاشوں کو چھوڑ کر حسین علیہ السلام کے اکبر کا ماتم کرتے ہیں۔ ہم دعائے سیدہ ہیں، ہم بم دھماکوں سے ختم ہونے والی قوم نہیں۔ ہمارے بہتر آج بھی غالب ہیں اور یزیدِ وقت آج بھی کربلا کے بہتر سے خوف زدہ ہے۔ بہاولنگر جیسے سانحات پر حکمرانِ وقت، میڈیا اور اداروں کی خاموشی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ عرصہ دراز سے ایک مکتب کی نسل کشی اور ٹارگٹ کلنگ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم سازش ہے اور اداروں کی خاموشی کوفہ جیسی خاموش امت کی یاد دلاتی ہے۔

کسی کے جَور و ستم یاد بھی نہیں کرتا

عجیب شہر ہے فریاد بھی نہیں کرتا

کبھی کبھی یہ گراں گوش چیخ پڑتا تھا

یہ کام اب مرا ہم زاد بھی نہیں کرتا

وہی صلیب و سلاسل، سکوت و سنگ زنی

نئے ستم کوئی ایجاد بھی نہیں کرتا

ای میل کریں