اسرائیل کی نابودی کیلئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
واقتلوہم حیث ثقفتموہم واخرجوہم من حیث أخرجوکم والفتنۃ أشدّ من القتل وقاتلوہم حتیٰ لا تکون فتنۃ (سورۂ بقرہ کی آیت ۱۹۰ اور ۱۹۳)
اب جبکہ اسرائیل کی غاصب حکومت مزید فتنہ انگیزی اورعرب (حکومتوں کی) زمینوں پر زیادہ سے زیادہ تجاوز کرنے اور صاحبان حق کے مقابلے میں اپنے غاصبانہ تسلط کو جاری رکھنے پر تلی ہوئی ہے اور کئی بار جنگ کرچکی ہے ادھر ہمارے مسلمان بھائی اس فساد کی جڑ کو اکھاڑ پھینکنے اور آزادی فلسطین کی راہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جہاد اور عظمت کے میدان میں جنگ لڑرہے ہیں ، لہذا تمام اسلامی حکومتوں اور بالخصوص عرب حکومتوں پر فرض ہے کہ خداوند متعال پر توکل اور اس کی لایزال طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنی پوری قوت اور استعداد کو ان جاں نثار مجاہدین کی مدد کیلئے صرف کریں جو میدان کی صف اول میں ملت اسلام پر امید لگائے ہوئے ہیں۔
فلسطین کی آزادی اور اسلامی شرافت وعظمت کے احیا کیلئے اس مقدس جہاد میں شرکت کریں ۔ ذاتی اختلافات اور ذلت آمیز نفاق سے پرہیز کریں ۔ آپس میں اتحاد کا مظاہرہ کریں ۔ اپنی صفوں میں اتحاد اور نظم وضبط پیدا کریں ۔ صیہونزم سے دفاع کرنے والوں کی کھوکھلی طاقت اور اسرائیل سے نہ ڈریں ۔ بڑی طاقتوں کے بے اثر ڈرانے دھمکانے سے نہ ڈریں ، نیز سستی اور کاہلی سے کہ جن کا نتیجہ ذلت اور خطرناک ہوتاہے، پرہیز کریں۔ اسلامی ممالک کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہیے کہ اس فساد کے جرثومے کو اسلامی ممالک کے قلب میں فقط ملت عرب کو نابود کرنے کیلئے قائم نہیں کیا گیا، بلکہ اس کا خطرہ اور نقصان پورے مشرقی وسطیٰ کو گھیرے ہوئے ہے۔ اصل سازش، دنیائے اسلام پر صیہونزم کا کنٹرول اور تسلط، نیز اسلامی ممالک کی زرخیز زمینوں اور عظیم منابع کو زیادہ سے زیادہ نو آبادیوں میں تبدیل کرنا ہے۔
فقط اسلامی ممالک کی جاں نثاری، پائیداری اور اتحاد کے ذریعے اس سیاہ استعمار کے بھوت سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ اگر کسی حکومت نے اسلام کو درپیش اس اہم مسئلے سے کوتاہی برتی تو دیگر اسلامی حکومتوں پر فرض ہے کہ اسے ڈرانے دھمکانے اور اس کے ساتھ روابط منقطع کر کے اسے اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کریں ۔ تیل کی دولت سے مالامال اسلامی حکومتوں پر فرض ہے کہ تیل اور باقی وسائل کو اسرائیل اور استعماری قوتوں کے خلاف استعمال کریں ، نیز ان ممالک کو بھی تیل فروخت نہ کریں جو اسرائیل کی مدد کرتے ہیں ۔
صحیفہ امام، ج ۳، ص ۱