جنت البقیع میں مدفون، اسلام کی اہم شخصیات
از قلم: مولانا سید رضی پھندیڑوی دہلی
حوزہ نیوز ایجنسی। ہرسال 8شوال کو پوری دنیا میں، جنت البقیع میں مدفون، اسلام کے ہمدرد اور جان نثاروں کی قبور کے نشان مٹانے اور ان کے اوپرکے سائبان کو مسمار کرنے پر غم و غصہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جنت البقیع کیا ہے؟
جنت البقیع مدینہ منورہ میں واقع وہ قبرستان ہے کہ جس میں10 ہزار کے قریب صحابہ دفن ہیں اس کا احترام ، فریقین کے نزدیک ثابت ہے اور تمام کلمہ گو اس کا احترام کرتے ہیں اس سلسلے میں فقط ایک روایت کافی ہے ” ام قیس بنت محصن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں پیغمبر (ص) کے ہمراہ بقیع پہونچی تو آپ (ص) نے فرمایا : اس قبرستان سے ستر ہزار افراد محشور ہوں گے جو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں جائیں گے ، نیز ان کے چہرے چودھویں کے چاند کی مانند دمک رہے ہوں گے“ (سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۴۹۳)
ایسے با فضیلت قبرستان میں عالم اسلام کی ایسی عظیم الشان شخصیتیں آرام کر رہی ہیں جن کی عظمت و منزلت کو تمام مسلمان، متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں ۔ اس مقدس سرزمین میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجداد، اہل بیت علیہم السلام، اُمّہات المومنین، جلیل القدر اصحاب، تابعین اور دوسرے اہم افراد جیسےعثمان بن عفان اور مذہب مالکی کے پیشوا" امام ابو عبداللہ مالک بن انس الاصبحی متوفی ١٧٩ ہجری " کی قبور ہیں کہ جنہیں آٹھ شوال 1344ہجری قمری کو آل سعود نے منہدم کر دیا۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے نام پر کیا گيا۔ہم یہاں پر فقط بعض اصحاب ، اہلبیت،اور ازواج رسول کے نام ذکرکررہے ہیں تاکہ قارئین کو اس قبرستان کی اہمیت اور منزلت کا اندازہ ہوسکے۔
اہل بیت علیہم السلام: حضرت فاطمہ (س) بنت رسول اکرمؐ، امام حسنؑ، امام زین العابدینؑ، امام محمدباقرؑ، امام صادقؑ۔ اس قبرستان میں مدفون ہیں۔
جنت البقیع میں مدفون ، اُمّہات المومنین(ازواج رسولؐ): اُمّہات المومنین میں عائشہ بنت ابی ابی بکر(متوفی 57 یا58 ہجری)، امسلمه (متوفی 61 ہجری)،زینب بنت خزیمہ،( متوفی 4 ہجری) ریحانہ بنت زبیر،( متوفی 8 ہجری) ماریہ قبطیہ، (متوفی 16 ہجری ) زینب بنت جحش،( متوفی 20 ہجری) اُم ّ حبیبہ بنت ابی سفیان، (متوفی ١٧٩ ہجری )، سودہ (متوفی 50یا54 ہجری) ، حفصه بنت عمر (متوفی 45 ہجری)؛ صفیه بنت حیی بن اخطب یہودی (متوفی 50 ہجری)اور جویریه بنت حارث (متوفی 50 یا 56 ہجری) مدفون ہیں۔
اِس کے علاوہ حضرت ختمی مرتبت (ص) کے فرزندابراہیم (ع) ، حضرت علی (ع) کی والدہ ماجدہ حضر ت فاطمہ بنت اسد(س)، آپ کی زوجہ حضرت اُمّ البنین (س)،حلیمہ سعدیہ (س) ، حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب ، عبداللہ بن جعفر، محمد حنفیہ ،عقیل بن ابی طالب (ع) اورنافع مولائے عبد اللہ بن عمر شیخ القراء السبعہ (متوفی 42یا44 ہجری) کی قبور بھی وہاں موجود ہیں۔ (البقیع؛یوسف الہاجری،ص ٣٧۔آثار اسلامی مکہ ومدینہ؛ص ٩٩۔تاریخ المعالم المدنیۃ المنوّرۃ ؛ سید احمد آل یاسین،ص ٢٤٥۔طبقات القرای ؛جلد ٢،ص ٣٣٠۔تہذیب التہذیب؛جلد ١٠ ،ص ٤٠٧)
جلیل القدر اصحاب اور تابعین: جناب عثمان بن مظعون : آپ رسالت مآب (ص) کے باوفا و باعظمت صحابی تھے آپ نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا جب فقط ۱۳ آ دمی مسلمان تھے اس طرح آپ کائنات کے چودہویں مسلما ن تھے۔ آپ مدینہ منورہ بھی ہجرت کرکے آئے ۔ جنگ بدر میں بھی شریک تھے ، عبادت میں بھی بے نظیر تھے آپ کا انتقال ۲ ھ ق میں ہوا، اس طرح آپ پہلے مہاجر ہیں جسکا انتقال مدینہ میں ہوا ۔ جناب عائشہ سے منقول روایت کے مطابق حضرت رسول اسلام (ص) نے آپ کے انتقال کے بعد آپ کی میت کا بوسہ لیا ، نیز آپ (ص) شدت سے گریہ فرما رہے تھے (معالم مکہ والمدینہ ص۴۲۲)۔ آنحضرتؐ نے جناب عثمان کی قبر پر ایک پتھر نصب کیاتھا تا کہ علامت رہے مگر مروان بن حکم نے مدینہ کی حکومت کے زمانے میں اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا جس پر بنی امیہ نے اس کی بڑی مذمت کی تھی (معالم مکہ والمدینہ ص۴۴۳)۔ دوسرے اصحاب جیسے: مقداد بن الاسود، مالک بن حارث، مالک اشتر نخعی، خالد بن سعید، خزیمہ ذو الشہادتین، زید بن حارثہ، سعد بن عبادہ، جابر بن عبداللہ انصاری، حسّا ن بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہ، اسعد بن زارہ، عبد اللہ بن مسعود اورمعاذ بن جبل سمیت دوسر ے جلیل القدر صحابہ کرام بھی یہیں مدفون ہیں۔ (مستدرک حاکم؛جلد ٢،صفحہ ٣١٨۔سیرہ ابن ہشام ؛جلد ٣،صفحہ ٢٩٥)
اِس عظیم قبرستان کی حفاظت اورتعمیر نوکے لئے آواز اٹھانا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ جس کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں ۔اسلام، انہی لوگوں کے وسیلہ سے ہم تک پہنچا ہے ۔اگر یہ افراد ہم تک اسلام کو پہنچانے کی کوشش نہ کرتے تو اسلام فقط تاریخ کے دامن میں ہی رہ جاتا ۔اور اِس وقت نہ اسلام ہوتا اور نہ ہی مسلمان ۔ اسلام کے بہادروں کی قبور اور ان کے مزارات اللہ کی نشانی ہیں۔ اللہ کی نشانیاں انسان کو اللہ تک لے جاتی ہیں۔جوقومیں، اپنے قومی اور مذہبی آثار کی تعظیم اوردشمن سے حفاظت کرتی ہیں وہ زندہ ہوتی ہیں ۔اگر کسی قوم وملت کے آثار مٹ جائیں تو جان لیجیے وہ مردہ ہوتی ہے ۔دشمن اسلام، ان آثار کو مٹا کےامت مسلمہ کو مردہ قرار دے رہا تھا ۔دشمن اسلام ،صدر اسلام کے مسلمانوں کی قبور کے سائبان اور ان کے نشانات مٹاکرسمجھ رہا تھا کہ دنیا کے تمام مسلمان مردہ ہوچکے ہیں، یہ اس کی بھول ہے ۔مسلمان زندہ ہیں اور اس وقت تک خاموش نہیں ہونگے جب تک قبرستان کی تعمیر نہ ہوجائے اور ہم اس ظلم پر آواز اٹھاتے رہیں گے نیز قبرستان کی تعمیر نو کا مطالبہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے کرکے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے رہیں گے۔ رب کریم جلدسے جلد ان بزگواروں کی قبور اور سائبان کی تعمیر فرما اور لوگوں کو حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرما، آمین۔ والحمدللہ رب العالمین۔