آسماں ولایت اور امامت کے چوتھے درخشاں ستارہ رسولخدا (ص) کے جانشین اور مرکز عصمت و طہارت کے چھٹے معصوم، میدان صبر و استقامت کے شہورا، تقوی و پرہیزگاری کے مظہر، شجاعت و بہادری کے پیکر، عبودیت اور بندگی کے محور، عبادت گزاروں کی زینت، سجدہ گذاروں کے نمونہ حضرت امام زین العابدین سید الساجدین امام علی بن الحسین (ع) کی غم انگیز شہادت کے موقع پر ہم عالم انسانیت بالخصوص آپ کے وارث اور جانشین برحق امام زمانہ (عج) کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں۔
آپ کی تاریخ شہادت اور سال شہادت کے بارے میں محدثین اور مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض 12/ محرم سن 95 ق لکھتے ہیں، بعض 12/ محرم سن 94 ق، اسی طرح بعض 22/ محرم سن 95 ق لکھتے ہیں۔ خلاصہ آپ کی شہادت ماہ محرم میں ہوئی ہے۔ کفعمی مصباح میں لکھتے ہیں کہ آپ کی شہادت 22/ محرم بروز ہفتہ ہشام بن عبدالملک کے حکم سے دیئے گئے زہر سے ہوئی ہے۔ اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ ولید بن ملک نے اپنے بھائی ہشام بن عبدالملک کے تحریک کرنے پر آپ (ع) کو مسموم کیا تھا۔ آپ کی تاریخ شہادت کے بارے میں اختلاف ہے لیکن ایران میں مشهور 12/ محرم ہی ہے اگر چہ ہند و پاک میں 25/ محرم کو آپ کا یوم شہادت مناتے ہیں اور یہ تاریخ، تاریخ مدینہ دمشق پر بھی مرقوم ہے۔
چھٹے امام، امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: حضرت علی بن الحسین زین العابدین 57/ سال کی عمر میں شہید کردیئے گئے۔ آپ اپنے مظلوم والد سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد 35/ سال تک زندہ رہے ہیں۔
حضرت احتضار کے وقت کچھ دیر کے لئے بیہوش ہوجاتے تھے اور جب ہوش آتا تھا تو سورہ واقعہ اور فتح کی تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے: اس خدا کی تعریف جس نے ہمارے وعدہ کو سچ کر دکھایا اور جنت کو ہماری میراث قرار دی تا کہ ہم جہاں چاہیں رہیں۔ عمل کرنے والوں کے لئے بہت اچھا اجر ہے۔ (زمر، آیت 74) مدینہ کی تاریخ میں آپ کی تشییع جنازہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے اور کہا جاتا تھا کہ اتنا مجمع اور اتنی زیادہ بھیڑ تھی کہ اس طرح بہت کم دیکھنے میں آئی ہے۔ آپ کا مزار آپ کے مظلوم چچا حضرت حسن مجتبی (ع) کے پہلو میں بقیع قبرستاں میں ہے۔
آپ کے فضائل و مناقب اس درجہ ہیں کہ اہلسنت کے اکابر علماء اور دانشوروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔ اہلسنت کے عالم مالک آپ کے بارے میں لکھتے ہیں: آپ کو زین العابدین اس لئے کہا جاتا تھا کہ آپ کثرت سے عبادت کرتے تھے۔ (شرح احقاق الحق، ج 19، ص 44) اسی طرح اہلسنت کے ایک متعصب عالم زہری کہتے ہیں: میں نے قریش میں علی بن الحسین سے افضل و برتر کسی کو نہیں دیکھا (تاریخ اسلام ذہبی، ج 6، ص 432)
آپ کی زندگی عبادت، دعا و مناجات اور گریہ میں گذری ہی لیکن آپ کا ہر عمل انسانیت کے لئی مشعل راہ رہا ہے اور آپ اپنی دعا و مناجات میں اعتقادی، اخلاقی، سماجی، علمی، تربیتی اور ثقافتی تمام مسائل بیان کردیئے ہیں اور وہ مجموعہ صحیفہ سجادیہ ہے جو "زبور آل محمد (ص)" کے نام سے مشہور ہے۔ اسی طرح "رسالة الحقوق" اور دیگر مجموعے بھی ہیں، ان مجموعوں میں آپ نے تو اخلاق کے گہرے گہرے اور خالص ترین مطالب بڑے ہی اچھے انداز میں بیان کردیا ہے۔
آپ کے اصلاحی اور زندگی ساز اقوال:
1۔ جھوٹ سے بچو خواہ چھوٹا ہو یا بڑا مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں، کیونکہ اگر انسان کو چھوٹے چھوٹے جھوٹ بولنے کی عادت ہوجائے گی تو وہ بڑے بڑے جھوٹ بولنے پر جری اور نڈر ہوجائے گا۔ 2۔ جب کوئی شخص کسی مسکین کو صدقہ دے اور وہ مسکین اس کے لئے اسی وقت دعا کرے تو اس کی دعا صدقہ دینے والے کے حق میں اسی وقت مستجاب ہوجاتی ہے۔
جمہوری اسلامی کے بانی اور عظیم مجاہد حضرت امام خمینی (رح) اپنی کتاب "آداب الصلاة" ص 152 پر فرماتے ہیں:
حضرت علی بن الحسین (ع) خداوند قدوس کی اس کے بندوں پر ایسی عظیم نعمت ہیں کہ خداوند عظیم نے آپ کے وجود مبارک سے اپنے بندوں پر احسان کیا ہے اور آپ (ع) کو عالم قرب اور قدس سے نازل فرمایا ہے تا کہ آپ اللہ کے بندوں کو عبودیت و بندگی کا صحیح طریقہ بتائیں۔