امام علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں کیا فرمایا تھا
جب آپؑ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپؑ کے سامنے لایا گیا اور آپؑ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپؑ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں بیٹوں یعنی امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا اگر میں صحت یاب ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا۔
رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد پچیس برس تک حضرت علی علیہ السلام نے خانہ نشینی میں زندگی بسر کی اور اس دوران بھی اسلام کے مسائل کا حقیقی مرجع آپؑ ہی قرار پائے اور جب ۳۵ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کا منصب حضرت علی کے سامنے پیش کیا تو آپؑ نے پہلے انکار کیا لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منصب قبول کیا کہ میں بالکل قران اور سنتِ پیغمبرؐ کے مطابق حکومت کروں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپؑ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی لیکن زمانہ آپؑ کی خالص مذہبی حکومت کو برداشت نہ کرسکا خصوصاً بنی امیہ سمیت بہت سے افراد آپؑ کی عدالت برداشت نہ کر سکے اور آپؑ کی عدالت کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھنے لگے اور اس کے نتیجہ میں آپؑ کو شہید کرنے کے لئے تیار ہوگئے۔
حضرت علی علیہ السلام کو ۱۹ رمضان سن ۴۰ھ کو صبح کے وقت ابن ملجم مرادی نامی ایک شقی انسان نے مسجد کوفہ میں حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا اور جب تلوار آپؑ کے سرِ اقدس پر لگی تو آپؑ نے فزتُ و رب الکعبۃ کی آواز بلند کر کے اپنی کامیابی کا اعلان کیا۔ جب آپؑ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپؑ کے سامنے لایا گیا اور آپؑ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپؑ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں بیٹوں یعنی امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا اگر میں صحت یاب ہوگیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم لوگوں نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے اور اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس ضربت کے نتیجہ میں دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱ رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت واقع ہوئی۔