قم میں مدرسہ فیضیہ کا واقعہ

قم میں مدرسہ فیضیہ کا واقعہ

علماء اور بزرگان بالخصوص حضرت امام (رح) کا مقابلہ جاری رہا

قم میں مدرسہ فیضیہ کا واقعہ

راوی: حجت الاسلام و المسلمین فردوسی پور

 

علماء اور بزرگان بالخصوص حضرت امام (رح) کا مقابلہ جاری رہا اور اس طرح سے اس سال کے مارچ (1963) جو امام صادق (ع) کے روز شہادت کا دن تھا لہذا اس مناسبت سے آیت اللہ العظمی گلپائگانی عزاداری کے عنوان سے مدرسہ فیضیہ میں ایک مجلس کا پروگرام رکھا۔ طے تھا کہاس مجلس کو جناب آقا (یحیی) انصاری خطاب کریں گے لہذا وہاں پر جو بھی آتا تھا آپ سمجھ جاتے تھے کہ یہ کوئی معمولی مجلس نہیں ہے۔ اس لئے ساواکی ایجنٹ معمولی لباس میں منبر کے پاس بیھٹے ہوئے تھے۔ یہ جیسے ہی منبر پر گئے کچھ دیر بعد صلوات پڑھی اور لوگوں نے خاموش رہنےاور خطابت کو غور سے سننے کی بات کہی لیکن ان لوگوں ںے توجہ نہیں دی۔ اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ لوگ مجلس کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور آخر کار انہوں نے یہ کام کیا بھی اور اس کے بعد طلاب کو مارا۔ طلاب نے آیت اللہ العظمی گلپایگانی کو کسی کمرہ میں لے گئے اور آپ کی حفاظت کی لیکن اس دن بہت سارے طلاب کو مارا اور ان کے عمامے، عبا اور کتابوں کو نذر آتش کردیا اور جیسا کہ مشہور ہے بعض طلاب کو چھت سے نہر کی طرف پھینک دیا اور ایک حیرت انگیز اور ناقابل بیان منظر دکھائی دیا۔

ٹھیک اسی وقت جب طلاب کو مدرسہ فیضیہ میں مارا تھا۔ امام کو خبر دی گئی کہ مدرسہ فیضیہ میں طوفان ہوئی ہے۔ یہ سن کر امام نے کہا آؤ چلیں۔ لوگوں نے کہا آپ کہاں جائیں۔ مدرسہ کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ وہاں پر طلاب کو مار رہے ہیں اور ان کی توہین کررہے ہیں۔ آپ نےکہا: ہمارے بچوں کو مار رہے ہیں اور ہم یہاں پر بیٹھے رہیں۔ ہمیں جانا چاہیئے۔ آخر کار آپ مدرسہ کی طرف آتے ہیں لیکن امام کو مسجد اعظم کی طرف لے جاتے ہیں اور امام وہاں پر کچھ دیر گفتگو کرتے ہیں اس کے بعد گھر واپس آجاتے ہیں اور اس حادثہ کے بعد آپ اعلانیہ صادر کرتے ہیں۔

ای میل کریں