امام خمینی (رح) اور عالمی تعلقات

امام خمینی (رح) اور عالمی تعلقات

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو دو بڑے پروپیگنڈے کیے گئے تھے

امام خمینی (رح) اور عالمی تعلقات

 

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو دو بڑے پروپیگنڈے کیے گئے تھے، وہ اسلامی حکومت کے خارجہ تعلقات اور خواتین سے متعلق قوانین سے متعلق تھے۔ عالمی میڈیا اپنی تشہیراتی مہم میں یہ کہتا تھا کہ ایران کی اسلامی حکومت الگ تھلگ ہو کر بہت جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی، کیونکہ اس کا رہبر و لیڈر امام خمینیؒ، لا شرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ یعنی نہ امریکہ قبول نہ روس قبول، لگاتا ہے۔ عوام الناس کو امام خمینیؒ سے متنفر کرنے اور ان کی سوچ اور فکر کو محدود اور عالمی حالات سے ناآشنا ثابت کرنے کے لیے سامراجی طاقتوں کی طرف سے کئی پروپیگنڈے کیے جاتے تھے۔

 لیکن امام خمینیؒ اور آپ کی ٹیم نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جو خارجہ پالیسی مرتب کی، اُس سے واضح ہوگیا کہ لا شرقیہ ولا غربیہ کے نعرے سے مراد کسی مشرقی یا مغربی بلاک کی اجارہ داری، تسلط اور ڈکیٹیشن کو قبول نہ کرنا ہے۔ امام خمینیؒ نے انقلاب سے پہلے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد کی تقاریر میں بھی اسلامی حکومت کے خدوخال کو کئی بار واضح کر دیا تھا، لیکن دشمن طاقتیں اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں تھیں۔ امام خمینیؒ کے نظریات میں خارجہ پالیسی کے کچھ معیارات تھے، اُس میں صرف ملکی مفادات کو ترجیح حاصل نہ تھی بلکہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار کو بھی پیش نظر رکھا گیا تھا۔

 امام خمینیؒ تمام دنیا سے برابری اور دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی بناء پر خارجہ تعلقات کو استوار کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ آپ نے انقلاب اسلامی کے بعد کسی عالمی معاہدے کو مسترد نہیں کیا، کسی ملک کی ملکی سالمیت اور ارضی سالمیت کو چیلنج نہ کیا اور نہ عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیریں۔ امام خمینیؒ کی خارجہ سیاست بقول ان کے اس اصول پر استوار تھی کہ ’’ہمارے تعلقات باہمی احترام کی اساس پر ہون گے اور اس حوالے سے نہ کسی ظلم کے سامنے سرِتسلیم خم کریں گے اور نہ کسی پر ظلم کریں گے۔‘‘

ای میل کریں