ایران اپنی دفاعی طاقت کے بارے کسی سے مذاکرات نہیں کریگا، جنرل دہقان

ایران اپنی دفاعی طاقت کے بارے کسی سے مذاکرات نہیں کریگا، جنرل دہقان

ایران کے سابق وزیر دفاع نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اس دعوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں ایران کے خلاف فوجی اقدامات اٹھانا چاہتا ہے

ایران اپنی دفاعی طاقت کے بارے کسی سے مذاکرات نہیں کریگا، جنرل دہقان

 

اسلام ٹائمز۔ ایران کے سابق وزیر دفاع اور سپریم لیڈر کے مشیر برائے دفاعی صنعت جنرل حسین دہقان نے امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ کے فوجی اقدام پر مبنی یورپی میڈیا کے دعوے کے جواب میں کہا ہے کہ ہم کسی بحران کا خیرمقدم کرتے اور نہ ہی کسی جنگ کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنگ شروع کرنے کے حق میں نہیں تاہم "مذاکرات برائے مذاکرات" بھی نہیں چاہتے۔ جنرل دہقان نے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لئے امریکہ کی جانب سے شرائط کے تعین کئے جانے پر مبنی بعض رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی صورت میں کسی بھی فریق کے ساتھ اپنی فوجی طاقت کے بارے مذاکرات نہیں کرے گا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ میزائل پاور ہمارے پیشہ ور ماہرین، جوانوں اور صنعتی مراکز کی بے پناہ صلاحیتوں کی ایک علامت ہے۔

ایران کے سابق وزیر دفاع نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے اس دعوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ اپنی صدارت کے آخری دنوں میں ایران کے خلاف فوجی اقدامات اٹھانا چاہتا ہے، خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی محدود اور تکنیکی حملہ ایک "بھرپور اور مکمل جنگ" میں بدل سکتا ہے جبکہ امریکہ سمیت یہ خطہ اور پوری دنیا ایسے کسی وسیع اور ہمہ جانبہ بحران کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جنرل حسین دہقان نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات کے معائنے کے بارے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ معائنہ جات؛ عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے انسپکٹرز کے "جاسوس" نہ ہونے تک جاری رہنا چاہئیں۔ انہوں نے 2 جولائی 2020ء کے روز نطنز میں واقع ایرانی جوہری تنصیبات میں ہونے والے دھماکے کو "ایک صنعتی تخریبکاری" قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعض آلات کو ممکنہ طور پر غلط طریقے سے نصب کر دیا گیا تھا جس کے باعث وہ حادثہ پیش آیا۔

مشیر دفاعی صنعت برائے چیف کمانڈر مسلح افواج نے سال 1983ء میں لبنان کے اندر ہونے والے دھماکے کے حوالے سے اُن پر لگائے جانے والے امریکی الزامات کے بارے کہا کہ امریکہ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ دنیا میں ہونے والے کسی بھی حادثے کو ایران میں موجود کسی شخص کے ذمے لگا دے البتہ کیا امریکہ کے پاس اس حوالے سے کوئی شواہد موجود ہیں؟ انہوں نے بالآخر ان حادثات کا الزام مجھ پر ہی کیوں عائد کیا ہے؟ جنرل حسین دہقان نے خلیج فارس کے بعض ممالک کی جانب سے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس رژیم کی مغربی ایشیاء کے اندر موجودگی کسی بڑی "تزویراتی غلطی" کا سبب بن سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام کے سبب ایک بڑا محاذ تشکیل پا جائے گا جبکہ آپ صرف یہ تصور کریں کہ کسی بھی فوجی اڈے کے اندر موجود ہر اسرائیلی کو اسرائیل مخالف گروپس کی جانب سے نشانہ بنا دیا جائے!!

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنرل دہقان نے اپنی گفتگو میں تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی ٹارگٹ کلنگ میں شہید کئے جانے کے انتقام کے طور پر پورے خطے سے امریکی افواج کے نکل جانے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے عراق کے اندر سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے "عین الاسد" پر ہونے والے ایرانی میزائل حملوں کو جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر لئے جانے والے انتقام کا ایک چھوٹا سا حصہ قرار دیا اور کہا کہ ایران کے وہ حملے "ایک ابتدائی ضرب" تھی جبکہ امریکہ کے اس دہشتگردانہ اقدام کے باعث مذاکرات میں ایران کی واپسی اب کوئی سادہ کام نہیں رہا۔

ای میل کریں