ایران کے خلاف نئے امریکی پروپیگنڈے کے پس پردہ اہداف
تحریر: علی احمدی
حال ہی میں ایک امریکی جریدے نے دعوی کیا ہے کہ ایران جنوبی افریقہ میں امریکی سفیر کی ٹارگٹ کلنگ کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ معروف امریکی میگزین "پولیٹیکو" نے لکھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کی انتقامی کاروائی کے طور پر جنوبی افریقہ میں امریکی سفیر لینا مارکس کو قتل کرنے کے منصوبے تیار کر رہا ہے۔ اس میگزین کا یہ دعوی ایسا منظرنامہ پیش کر رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدام کا مقدمہ فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ پولیٹیکو میں یہ دعوی نشر ہونے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک تقریر میں دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر ایران نے ایسا کوئی اقدام کیا تو اسے ہزار گنا زیادہ شدید جواب دیا جائے گا۔
اس کے بعد جمعہ کے روز بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے ویسکنسن میں اپنے حامیوں پر مشتمل الیکشن ریلی سے تقریر کرتے ہوئے اپنی اس دھمکی کو دہرایا اور کہا کہ ہم اب تک ایران پر جو وار کر چکے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ شدید وار کریں گے۔ پولیٹیکو میں شائع ہونے والے اس دعوے اور امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیانات کے بعد ایران کی وزارت خارجہ نے اس دعوے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ تہران جنرل قاسم سلیمانی کی بزدلانہ ٹارگٹ کلنگ کے بارے میں بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ہر سطح پر اپنی مہم جاری رکھے گا۔ دوسری طرف جنوبی افریقہ کے وزیر خارجہ نیلڈی پینڈور نے ایس اے بی سی نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے پولیٹیکو کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔
جنوبی افریقہ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران میں ہمارے دوست بھی اس دعوے پر شدید تعجب کا اظہار کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری نظر میں یہ دعوی انتہائی عجیب ہے کیونکہ ایران جنوبی افریقہ کا اچھا دوست ہے جبکہ جنوبی افریقہ بھی ایران کا اچھا دوست ہے لہذا یہ بہت عجیب بات ہے کہ ایک دوست ملک اپنے دوست ملک میں ایسا اقدام انجام دے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس ایران مخالف پروپیگنڈا مہم کو دیکھ کر وہ منظر یاد آ جاتا ہے جب امریکی ذرائع ابلاغ نے ایران کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کیا تھا کہ ایران واشنگٹن میں سعودی سفیر کی ٹارگٹ کلنگ کے درپے ہے۔ بعد میں سب پر واضح ہو گیا تھا کہ یہ دعوی بنیاد سے ہی جھوٹا اور غیر حقیقی دعوی تھا۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے اس جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے ایک طرف تو عادل الجبیر، جو اس وقت امریکہ میں سعودی سفیر تھا، کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس کے نتیجے میں وہ ترقی پا کر وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہو گئے جبکہ دوسری طرف سعودی حکام کو اشتعال دلایا اور انہیں ایران کے خلاف مزید شدت پسندانہ اور جارحانہ پالیساں اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔ اہم نکتہ بھی یہی ہے کہ اگرچہ اس دعوی کی سچائی اور حقیقت کبھی بھی ثابت نہیں ہو سکی لیکن امریکی اور سعودی حکمرانوں نے ہمیشہ ایران کے خلاف اپنے شدت پسندانہ اور جارحانہ اقدامات کا جواز پیش کرنے کیلئے اسی دعوے کو بنیاد بنایا ہے۔ یوں یہ دعوی ان کے ہاتھ میں ایران مخالف اقدامات اور پالیسیوں کا اچھا بہانہ بنا رہا ہے۔
موجودہ حالات کے تناظر میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایران پر جنوبی افریقہ میں امریکی سفیر کی ٹارگٹ کلنگ کا منصوبہ بنانے کا الزام چند مقاصد کے تحت لگایا گیا ہے۔ پہلا مقصد عالمی رائے عامہ کی توجہ چند عرب حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر کے امت مسلمہ اور فلسطین کاز سے واضح غداری سے ہٹانا ہے۔ دوسرا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے بعض احمقانہ فیصلوں کی توجیہات پیش کرنا ہے۔ آج امریکہ کے اپنے اتحادی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کو نامعقول اقدام قرار دے رہے ہیں۔ لہذا ایران کے خلاف ایسے جھوٹے پروپیگنڈے کا ایک مقصد ٹرمپ کے ایران مخالف اقدامات کو درست اور معقول ظاہر کرنا ہے۔ دوسری طرف کرونا وائرس سے متعلق مناسب کارکردگی ظاہر نہ کرنے کے باعث امریکی عوام کی توجہ درپیش مشکلات سے ہٹانا بھی مقصود ہے۔
تیسرا مقصد ایران کے خلاف جنگ کے مقدمات فراہم کرنا ہے۔ بعض سیاسی ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کو آئندہ صدارتی الیکشن میں اپنی ناکامی کا یقین ہو گیا تو وہ غاصب صہیونی رژیم اور آل سعود رژیم کی شہہ پر ایران کے خلاف جنگ شروع کر سکتے ہیں۔ ماضی میں امریکی حکومت کے غیر سنجیدہ اور احمقانہ اقدامات کے پیش نظر یہ احتمال کافی حد تک درست دکھائی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے ایران کے صدر حسن روحانی نے اس جھوٹے پروپیگنڈے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے مکمل طور پر تیار ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران امریکہ کے کسی بھی احمقانہ اقدام کا منہ توڑ جواب دے گا۔