شہید علامہ عارف الحسینی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حقیقی فرزند تھے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ

شہید علامہ عارف الحسینی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حقیقی فرزند تھے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ

شہید حسینی نے کوشش کی، سادگی اور خلوص سے کام کیا، ان کے نزدیک کام ہونا ضروری تھا سختی برداشت کر لیتے تھے

شہید علامہ عارف الحسینی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حقیقی فرزند تھے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ

 

حوزہ نیوز ایجنسی؛ پاکستان کے معروف اسکالر سید علی مرتضی زیدی نے عظیم الشان "فکر حسینی سیمنار" سے خطاب کے دوران کہا کہ شہید عارف الحسینی نے بہت درجات اور مقامات حاصل کئے، جن کو شاید ہم درک نہ کر سکیں۔ امام خمینی (رہ) جیسی شخصیت نے شہید حسینی کو اپنا بیٹا کہا ہے، اب آپ تصور  کریں امام نے کمالات میں ان کو اپنا بیٹا  کہا، امام (رہ) نے چند افراد کو اپنا بیٹا تعبیر کیا ہے انہوں نے کہا کے امام (رہ) شہید کی شہادت کے تعزیت نامہ میں شہید کے بارے میں لکھا تھا شہید علامہ عارف الحسینی سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے حقیقی فرزند تھے۔

انقلاب اسلامی  کو 40 برس ہو چکے ہیں،  1984 میں وہ قوم تھی جو عالم کو نہیں پہچانتی تھی ، حوزہ علمیہ دین کی تبلیغ کیلئے کام کر رہا  ہے،  شہید حسینی کیخلاف پروپیگنڈا تھا،  مخالفتیں تھیں- انہوں نے امام خمینی  اور انقلاب کی حمایت میں کام کیا۔  اس دور میں نماز کو قبول کرنا شروع کیا۔

شہید حسینی نے اپنی قیادت کے دور میں اکثر وقت دوروں میں گزارا۔ وہ دور دراز علاقوں میں پہنچے اس دور میں جب  نہ پیسہ، نہ لوگ اور نہ انفراسٹرکچر تھا، ضیا الحق نے جو ظلم کیا وہ آمریت کا دور جس میں شہید نے کام شروع کیا،  ان کے وقت سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔

ہم شخصیتوں کی کامیابی یا ناکامی کو نتائج سے طے کرتے ہیں، اگر امام خمینی انقلاب نہ لاتے تو کیا آپ ان کو پہچان پاتے؟ اگر انقلاب کی کوشش رک جاتی تو کیا آپ ان کو کامیاب مانتے؟ خداوند کریم نے کوشش کی ذمہ داری رکھی ہے مگر ہم لوگ نتائج کو دیکھتے ہیں۔

شہید حسینی نے کوشش کی، سادگی اور خلوص سے کام  کیا، ان کے نزدیک کام ہونا ضروری تھا سختی برداشت کر لیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ قائد شہید کی زندگی سے اصولوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

1۔انسانی اور اخلاقی صفات ان کے اندر تھیں، لازم ہے کہ ہم ان کے صفات کی پیروی کریں  سادگی ان کی صفت میں تھی،  جھوٹ نہیں بولتے تھے،تقوی و پرھیزگاری، عبادات  کی ادائیگی ، نماز شب پڑھتے تھے،  لوگ صفات کی وجہ سے بڑے بنتے ہیں، وہ ہر وقت نصیحتیں کرتے تھے،  احادیث سناتے تھے ان  کے ذھن میں دنیا نہیں تھی، ہم نے روایات میں پڑھا ہے  دنیا میں رہو آخرت کیلئے رہو۔ دنیا اتفاق پر مل جاتی ہے، آخرت کمانی پڑتی ہے۔انسانی کمالات کمانے پڑتے ہیں، مقامات مل جاتے ہیں مگر کمالات کمانے پڑتے ہیں- پارا چنار کے لوگ جرائتمند ہیں اور شہید جرائت والے تھے۔

2-قائدانہ صلاحیت میں اہم حلم ( بردباری) ہے، مشکلات میں شکوہ نہ کرے، شہید  سختیوں میں بردبار رہے،  حلم نہیں ہے تو آپ قیادت نہیں کر پائیں گے، دور اندیشی کا مطلب آگے کو سمجھنا  وہ آگے تک جانے کو سوچتے تھے۔

قائد ملت پاکستان کو حزب اللہ کی جگہ پر دیکھتے تھے۔

شہید حسینی کا ایک ہدف تھا، انہوں نے چند لوگوں کو معمور کیا تھا کہ قوم کے مستقبل کے بارے میں سوچیں۔ لمبی مدت کا منصوبہ بنائیں ڈاکٹر محمد علی نقوی نے یہ بات مجھے بتائی تھی۔رد عمل، ٹیکٹس اور اسٹریٹجی۔

ہم ردعمل پرچل رہے ہیں۔ 20 فیصد ہوکر  وہ کام کریں  جس سے دوسروں کو ہماری طاقت کا پتہ چلے۔

معاشرے میں ایک طریقہ کار ہوتا ہے،  جب بھی شہید حسینی نے کام کیا تھا تو اھلبیت کی سنت کی پیروی کی۔ ہمیں شہید کی  حکمت کی پیروی کرنی ہے ہمیں ان کے اصولوں کی پیروی کرنی ہے۔

شہید حسینی نے کہا کہ ہم نے انتخابی سیاست میں آنا ہے،  آج کی حکمت عملی کیا ہوگی، معاشرے میں کام کرنے کی وقت کے ساتھ ضرورتیں تبدیل ہوتی ہیں۔ اصول تبدیل نہیں ہوتے مگر حکمت عملی تبدیل ہوسکتی ہے۔

عالمی تعلقات میں سچ بولنے کا فائدہ ہے  پورا اسرائیلی میڈیا جھوٹا ہے مگر سید حسن نصر اللہ جھوٹ نہیں بولتے۔

 سیاست جھوٹا بنانے کیلئے ہے تو نہیں کرنی ہے۔ آپ سچ پر سمجھوتہ نہ کریں۔ شہید کی شخصیت کو سمجھنا- دین یہ نہیں کرتا  جلدی مرو مگر موت کی آرزو کرو،  شد نے شہادت طلبی سکھائی، قومیں بغیر شہید لیڈر کے نہیں چلتیں۔

 انہوں نے امام راحل کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رحمةاللہ علیہ رہبر انقلاب ہونے کے باوجود دن میں 8 مرتبہ قرآن پڑھتے تھے، مفاتیح کی دعائیں پڑھتے تھے۔

 آخر میں انہوں نے شہید کے مقاصد کو زندہ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں کچھ ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے جو شہید کے اہداف کیلئے کام کریں۔

ای میل کریں