قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی۔۔۔ خمینی پاکستان
تحریر: ارشاد حسین ناصر
وہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی و قبائلی علاقے پاراچنار کے افغان سرحد پر واقع گائوں پیواڑ میں سید فضل حسین الحسینی کے گھر میں پیدا ہوئے، اس دور دراز، دشوار گذار، بلند و بالا پہاڑوں میں گھرے قبائلی گائوں کے بچے کو خدا کے لطف و کرم سے جو مقام ملنا تھا، اس کے بارے میں کسی کو خیال و خواب بھی نہیں آیا ہوگا، انتہائی نجیب و شریف خاندان سے تعلق اپنی جگہ، عارف حسین الحسینی کو جس نے بھی عمر کے کسی بھی حصہ میں دیکھا، سنا یا نشست و برخاست کی ہے یا کسی بھی طرح قربت کا کوئی لمحہ اسے نصیب ہوا ہے، وہ ان کی شہادت کو آج اکتیس برس گذر جانے کے بعد بھی ان کے ذکر پر دیواروں سے ٹکریں مارتا دکھائی دیتا ہے اور اس کی زبان پر ایک ہی مصرع ہوتا ہے۔۔
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے
میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے، ان کی دست بوسی کی سعادت بھی حاصل ہے، ان کی گفتگو بھی سامنے دوزانوں ہو کر سنی ہے، انہیں مینار پاکستان کے تاریخی جلسہ گاہ میں بھی باطل کو للکارتے ہوئے سنا ہے، انہیں دعائے کمیل کے دوران خدا سے راز و نیاز اور قربت الہیٰ کے حصول کے لمحات میں بھی دیکھا ہے۔
انہیں مہمانوں کی تواضع و انکساری و عاجزی کے ساتھ انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے بھی دیکھا ہے، انہیں سادہ غذا سے تناول ماحاضر کی محفل میں بھی دیکھا ہے، انہیں اپنے ہاتھوں سے پیش کردہ چائے کی پیالی نوش کرتے بھی پر لطف انداز میں دیکھا ہے، انہیں اپنے نام کے نعرے لگنے پر مسجد میں اعتراض کرتے بھی دیکھا ہے، انہیں نوجوانوں کے سوالوں کے جواب دیتے اور رہنمائی کرتے بھی دیکھا ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر خوشبو کا کوئی وجود ہوتا تو میں یہی کہتا کہ میں نے عارف حسین الحسینی کی شکل میں اسے دیکھا ہے۔۔ اگر کشش و جاذبہ کی کوئی مورت ہوتی تو میں یہی کہتا کہ وہ مورت عارف حسین الحسینی کی ہی تھی۔۔ اگر تقویٰ، اخلاص، سادہ زیستی کی کوئی صورت و تصویر مانگتا تو میں انہی کی تصویر کو پیش کر دیتا۔۔ اور اگر آج اکتیس برس گذر جانے کے بعد بھی ولایت فقیہ، امام خمینی، انقلاب اسلامی کا کوئی حقیقی عاشق، پیرو، جانثار کا پتہ پوچھتا تو میں اسے پیواڑ میں آرام فرما اس مرد قلندر کے شکستہ مزار پہ لے جاتا۔۔۔۔تو اس کی زبان پر بے ساختہ یہی شعر سنائی دیتا ہے۔۔
ہم غمزدوں کے عارف حسینی سلام ہو
تم پہ میرے وطن کے خمینی سلام ہو
شہید قائد کو آپ پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کا بانی اور سرخیل کہہ سکتے ہیں۔ علامہ سید عارف حسین الحسینی نے اپنے دور قیادت میں مسلم امہ کے اتحاد و وحدت کیلئے بھرپور کاوشیں کیں اور مختلف فرقوں کے ماننے والوں کو اسلام کے نام اور مشترکات پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ وہ ہمیشہ اپنے ہمراہ کسی نہ کسی اہل سنت عالم دین کو دورہ جات میں ساتھ رکھتے تھے، ان کا اتحاد و وحدت امہ پر موقف بہت دوٹوک ہوتا تھا اور ان کے اس موقف کی بدولت یہ امید ہونے لگی تھی کہ دینی جماعتیں ملک کو بدترین آمریت سے نکالنے کیلئے اور اسلام کی آفاقی تعلیمات کے عملی نفاذ کیلئے مل بیٹھتیں۔ ضیاء الحق کے نام نہاد شریعت بل کو علامہ احسان الٰہی ظہیر جو اس دور میں اہلحدیث مکتب کی معروف قیادت تھے، وہ بھی شہید عارف الحسینی کے موقف کے ساتھ تھے۔ وہ فکر امام خمینی کے خالص اور سچے پیرو تھے، اسی لئے شہید عارف حسین الحسینی پاکستان کو عالمی استعمار کے چنگل سے آزادی دلوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے ہر خطاب اور گفتگو میں اس حوالے سے عوام اور نوجوانوں کو معلومات سے نوازا اور ان کے افکار و شعور میں یہ بات بٹھا دی کہ جب تک ہم اس ملک کو استعمار اور مغرب سے آزاد نہیں کروا لیتے اور اپنے مقدر کے فیصلے اپنے ایوانوں مین نہیں کرتے، ہم ترقی نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
ہمیں وہ جمعہ کا دن ہرگز نہیں بھولتا، جب 5 اگست 1988ء کی دم ِ فجر تھی، جمعہ کا دن تھا، پشاور کے جی ٹی روڑ پر واقع جامعہ معارف الاسلامیہ میں ایک فائر ہوا، یہ ایک فائر ایک ملت اسلامیہ کو یتیم کر گیا، ایک قوم کو بے آسرا کر گیا، ایک ملک میں قیادت کا نا ختم ہونے والا قحط پیدا کر گیا، دین خدا کے ماننے والوں سے ایک بلند پایہ دینی سیاستدان کو چھین گیا، روحانیت و معنویت کے متلاشیوں کو بھٹکتا ہوا چھوڑ گیا، شعور و فکر کے ارتقاء و بلندی کے خواہش مندوں کو اندھیری راہوں میں چھوڑ گیا، پاکستان کے نقشے پر استعمار کے حقیقی مخالف ایک عالم دین کے پاکباز خون کے انمٹ نقوش چھوڑ گیا، امید انقلاب کی روشن شمع کو آندھیوں میں جلتا ہوا چھوڑ گیا، یہ گولی کس نے اور کیوں چلائی اور اس ایک فائر سے کون قتل ہوا۔۔ اور کیوں قتل کیا گیا۔؟ قائد مظلوم علامہ سید عارف حسین الحسینی کو نماز فجر کی تیاری کے وقت ان کے پشاور میں واقع مدرسہ جامعہ معارف الاسلامیہ کی بالائی منزل کی سیڑھیوں میں اس وقت شہید کیا گیا، جب آپ پہلی منزل پر واقع وضو گاہ سے نیچے اتر رہے تھے۔
جمیل اللہ نامی قاتل نے ایک فائر کیا، جو علامہ سید عارف حسین الحسینی کے دل میں پیوست ہوگیا اور ان کی المناک شہادت کا سبب بن گیا۔ اس المناک شہادت نے ملت تشیع پاکستان پر بالعموم اور پاکستان میں انقلاب اسلامی کے سورج کے طلوع کی خواہش رکھنے والوں کی جدوجہد پر کتنے اثرات مرتب کیئے ہیں، آج ہم اکتیس برس گذر جانے کے بعد دیکھ سکتے ہیں کہ کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم صفر پہ ہی کھڑے ہیں، جبکہ شہید کی زندگی میں ہمیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ بہت جلد ہم پاکستان سے استعمار کا صفایا کرکے انقلاب برپا کر لیں گے۔ ہمیں شہید عارف کی شکل میں بلاشبہ ایک خمینی ہی دکھتا تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ شہید ہی پاکستان کے خمینی تھے، اب یہ مٹی شائد اس خمیر سے خالی ہوگئی ہے۔ آج اس بات کو اکتیس برس بیت رہے ہیں، یہ اکتیس برس دراصل ہماری ملی یتیمی کا عرصہ ہے۔ ہم نے یہ تمام عرصہ اپنے محبوب قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی شہید کے افکار و کردار اور چھوڑے ہوئے نقوش کی روشنی میں ان کے کاروان کو آگے بڑھانے میں گذارا ہے، مگر خدا گواہ ہے کہ ایک دن بھی ان کی یاد سے غافل نہیں ہوئے، ان کے رستے کو نہیں بھولے، ان کی بتائی ہوئی منزل کو پانے کی جدوجہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں مڑے۔