حجة الاسلام و المسلمین مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کا شمار پاکستان کے جید اور بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے, علماء کے حلقے میں آپ کی شخصیت کو منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے ہم جماعت بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ کراچی کے علاقے جعفر طیار میں آپ کی زیر نگرانی ایک مدرسہ بنام مدرسئہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی چل رہا ہے۔ کسی بھی اہم قومی و ملی فیصلے کیلئے آپ کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
بزرگ عالم دین و مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی شوریٰ عالی کے سربراہ کا ”اسلام ٹائمز“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، اگر ہم پاکستانی تشیع کا عالمی تشیع سے موازنہ کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب کی سمت ایک طرف ہے، البتہ کچھ ممالک اس سمت میں ہم سے آگے بڑھے ہیں، ایران اور لبنان تو آگے ہی ہیں، بحرین جیسے جمود کے شکار معاشرے میں تشیع تیزی سے آگے بڑھی ہے، بحرین میں قیادت علماء کے ہاتھ میں ہے، جوان سب ان کے ساتھ ہیں، پاکستان میں تشیع کی سمت وہی ہے، لیکن ہم تیزی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکے، صرف نعرے بازی کرنا، ریلیاں نکالا پیشرفت نہیں ہے، بنیادی پیشرفت ہونی چاہیئے، بنیادی کام ہونے چاہیئے، جس سے تشیع مضبوط ہو، تنظیمیں مضبوط ہوں، ہم عالمی تشیع کے ہم قدم ہوسکیں، البتہ پاکستانی تشیع کی جو صورتحال ہے، یہ بھی غنیمت ہے۔
ایران میں آنے والے انقلاب اسلامی کے بعد پاکستان میں اس کی حمایت کرنے والے علماء کرام و دانشور حضرات کی تعداد انتہائی کم تھی، بعض کے تو ذہن میں یہ تھا ہی نہیں کہ یہ اسلامی انقلاب ہے، اس کی حمایت کرنی چاہیئے، دو تین تنظیمیں تھیں، جو انقلاب اسلامی سے وابستہ تھیں، قیادت کا فقدان تھا، چاہے علماء کی صف میں یا غیر علماء کی صف میں یا تنظیموں کے حوالے سے، یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کا پیغام گھر گھر نہیں پہنچ سکا، شہید عارف حسینیؒ سے پہلے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دور میں کارکنان کی اکثریت کا انقلاب اسلامی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔
شہید عارف حسین الحسینیؒ کا اپنے دور قیادت میں اکثر وقت یہ ثابت کرنے میں گزر گیا کہ وہ بھی شیعہ ہیں، یاعلیؑ مدد کے قائل ہیں، شہید عارفؒ کے خلاف انتہائی زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا، شہید عارف کے دور میں فعال علماء و غیر علماء کی تعداد بہت کم تھی، چند افراد اتنے بڑے ملک میں انقلاب اسلامی کا پیغام پہنچانے کیلئے ناکافی تھے، فعال افراد کے نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے انقلاب اسلامی یا تعارف ان معنوں میں نہیں ہوسکا، جیسا ہونا چاہیئے تھا۔ پھر امریکا سمیت طاغوتی و استعماری طاقتوں نے بھی بھرپور سازشیں کہ کسی بھی طرح انقلاب اسلامی کے اثرات پاکستانی عوام پر مرتب نہ ہوسکیں، یہ سلسلہ رکا نہیں، بلکہ آج بھی استعماری سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔
انقلاب اسلامی کے سرکردہ افراد پاکستانی تشیع سے پُرامید ہیں، پاکستان میں ان شاء اللہ کام ہو جائے گا، البتہ ابھی تو وہ خود بھی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور پاکستان میں بھی تشیع مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اگر ہم ان مسائل کا مقابلہ کریں، انقلاب اسلامی کا صحیح تعارف کرائیں، تو پاکستان کی زمین بھی بہت زرخیز ہے، انقلاب اسلامی کے سرکردہ افراد کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کے شیعہ ایران کیلئے کام کریں، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی شیعہ اپنے لئے کام کریں، اپنے آپ کو مضبوط بنانے کیلئے کام کریں۔
انقلاب اسلامی تشیع سے الگ نہیں ہے، انقلاب اسلامی تشیع کا ہی چہرہ ہے، لہٰذا تشیع کیلئے کام کرنا، اپنے مسائل کو حل کرنا، اپنی خامیوں کو دور کرنا، باہمی اختلافات کو ختم کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا، ایک مضبوط ملت کے طور پر سامنے آنا، یہ انقلاب اسلامی کی پاکستانی تشیع سے توقعات ہیں۔ تنظیموں و خواص کو چاہیئے کہ ملت تشیع کو مضبوط کریں، کیونکہ ملت تشیع کو مضبوط کرنا دراصل انقلاب اسلامی کو مضبوط بنانا ہے، ملت تشیع کو مضبوط بنانا ہی انقلاب اسلامی کی خدمت کرنا ہے۔