دنیا کی سپر طاقتیں ایران سے خوفزدہ کیوں ہیں؟
اس وقت ایران ایک عظیم قدرت میں تبدیل ہو چکا ہے جس سے دنیا کی سپر طاقتیں خوفزدہ ہیں اور دنیا کے سارے مظلوموں کو ایران سے امیدیں ہیں ایران کی یہ طاقت پروردگار کی خاص عنایت ہے جس کو ہر کوئی حاصل نہیں کر سکتا یہ وہ چیز ہے جو اللہ تعالی نے ہم کو دی ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ہم کچھ بھی نہیں ہیں ہمارے پاس جو کچھ بھی سب اللہ کا تعالی کا دیا ہوا ہے ہم پر خدای مہربان کا خاص لطف و کرم ہے آج دنیا کی سپر طاقتوں کے دلوں میں ایران کا خوف اور ڈر اس بات کی دلیل ہے ہیکہ ہم پر اللہ تعالی کا خاص لطف و کرم ہے۔
امام خمینی پورٹل کی رپورٹ کے مطابق اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی(رح) نے 22 خرداد 1361 ہجری شمسی کو شہید صیاد شیرازی اور دوسرے فوجی اعلی حکام سے ایک ملاقات کے دوران فرمایا اس وقت ایران ایک عظیم قدرت میں تبدیل ہو چکا ہے جس سے دنیا کی سپر طاقتیں خوفزدہ ہیں اور دنیا کے سارے مظلوموں کو ایران سے امیدیں ہیں ایران کی یہ طاقت پروردگار کی خاص عنایت ہے جس کو ہر کوئی حاصل نہیں کر سکتا یہ وہ چیز ہے جو اللہ تعالی نے ہم کو دی ہے لہذا ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے ہم کچھ بھی نہیں ہیں ہمارے پاس جو کچھ بھی سب اللہ کا تعالی کا دیا ہوا ہے ہم پر خدای مہربان کا خاص لطف و کرم ہے آج دنیا کی سپر طاقتوں کے دلوں میں ایران کا خوف اور ڈر اس بات کی دلیل ہے ہیکہ ہم پر اللہ تعالی کا خاص لطف و کرم ہے۔
رہبر کبیر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دنیا جتنی آپ کی مخالفت کرتی رہے گی آپ اتنا ہی ترقی کریں گے اگر ایران کوئی معمولی ملک ہوتا تو دنیا کی سپر طاقتیں اس حد تک ایران کی مخالفت نہ کرتیں یہ طاقتیں اس لئے ایران کی دشمن بنی ہوئی ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کوئی ملک امریکہ اور اس کے حامیوں کے خلاف بولنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ ایران ہی ہے اس لئے یہ ساری طاقتیں مل کر ایران کے خلاف منصوبے بنا رہی ہیں آپ جانتے ہیں کہ میں نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں جب صدام اہنی جیت کا خواب دیکھ رہا تھا یہ کہا تھا کہ آپ نے ہمارے ملک پر حملہ کیا ہے آپ نے ہمارے ملک میں زبردستی داخل ہو کر اس کو نقصان پہنچایا ہے لہذا آپ کو یہ ملک چھوڑنا ہو گا اور میں آج بھی یہی کہوں گا جب صدام کا نام بھی باقی نہیں ہے اگر آپ صلح کرنی ہے تو ہمارے مک سے نکلنا ہوگا یا آپ خود نکل جائیں ور نہ ہم خود نکالیں گے۔
اسلامی تحریک کے راہنما نے ایران عراق کی صلح کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرمایا کہ صدام کی صلح طلبی اسرائیل کی صلح طلبی کی طرح ہے جس طرح اسرائیل زبردستی لبنان کے شہروں پر قبضہ کرنے کے بعد صلح کی دعوت دے رہا ہے لیکن لبنان اور اسرائیل کے درمیان اسی دن صلح ہو گی جس دن لبنان اسرائیل کے منہ پر طمانچہ مار کر اسے اپنی حدود سے باہر نکالے گا آج اسرائیل کی طرح صدام بھی ہمارے ملک پر حملہ کرنے کے بعد صلح چاہتا ہے۔