15/ ویں شوال تاریخ کے آئینہ میں
اس تاریخ کو سن 3 ھ ق میں غزوہ احد ہوئی ہے اور یہ غزوہ بدر کے بعد تھی لیکن دونوں ہی ایک ہی سال میں ہوئی ہیں۔ اس غزوہ میں ابوسفیان اور دیگر مشرکین اپنے خواتین کو بھی لے کر آئے تھے لہذا پہلے ہی حملہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی کیونکہ جب حضرت علی (ع) نے طلحہ بن طلحہ کو واصل جہنم کیا تو سارے کفار بھاگ گئے اور یہ نامراد انسان لشکر کفار کا سردار اور سرغنہ تھا۔ اس کے بعد خالد بن ولید جو کچھ دیگر افراد کے ساتھ گھات لگائے ہوا تھا وہ نیزہ اور تلوار لیکر باہر نکل آیا اور حضرت رسولخدا (ص) کو چاروں طرف سے گھیر لیا، آپ کی پیشانی زخمی کی اور آپ کے 70/ افراد کو مار ڈالا۔
ایسے ہنگامی اور ناگفتہ بد حالات میں علی (ع) کے سوا سارے کے سارے پیغمبر کو چھوڑ کر فرار کر گئے۔ رسولخدا (ص) بیہوش ہوگئے اور حضرت علی (ع) اس وقت کفار و مشرکین کو حضرت رسولخدا (ص) کے اطراف سے بھگار رہے تھے۔ اس جنگ میں حضرت علی (ع) کے جسم پر 90/ زخم لگے تھے۔ اس دن آپ کے ایثار و قربانی پر ملائکہ حیرت زدہ تھے اور زمین و آسمان کے درمیان آواز بلند ہوگی؛ "لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار"
اس کے بعد عاصم بن ثالث، ابودجانہ اور سہل بن حنیف جیسے بعض اصحاب آپ سے ملحق ہوئے۔ اس دن اپنے زمانہ کے سید الشہداء حضرت حمزہ ایک وحشی کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یہ وحشی وہی ہے جو اس واقعہ کے بعد سے رسولخدا (ص) کے خوف سے سختی میں زندگی گذاررہا تھا۔ آخر کا پوشیدہ طور پر یہ رسولخدا (ص) کی خدمت میں پہونچا اور کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا۔
خلاصہ حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد معاویہ کی ماں ھند جو حضرت حمزہ (ع) سے حد درجہ بغض و عداوت رکھتی تھی نے آپ کا جگر منگایا اور منہ میں رکھ دیا لیکن اس کے منہ میں جاکر سخت پتھر کی طرح ہوگیا اور وہ کھا نہ سکی آخر کار منہ سے باہر نکالا اسی وجہ سے اس ملعونہ کو "آکلة الاکباد" کہتے ہیں۔ حمزہ (ع) کی شہادت کا رسولخدا (ص) پر گہرا اثر ہو اور بڑا صدمہ پہونچا اور جب آپ میدان جنگ سے مدینہ آرہے تھے تو ہر گھر سے رونے کی آوازیں بلند تھیں لیکن حمزہ (ع) کے گھر سے کوئی آواز نہیں تھی یہ دیکھ کر رسولخدا (ص) کے آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہا: آج حمزہ کا کوئی رونے والا نہیں ہے۔
بعض علماء کے بقول آج کی تاریخ میں حضرت علی (ع) کے لئے سورج پلٹنے کا واقعہ پیش آیا ہے لیکن اصحاب کے نزدیک اور کثیر اخبار کا تقاضا یہ ہے کہ حضرت علی (ع) کے لئے دوبار سورج پلٹا ہے ایک بار رسولخدا (ص) کی زندگی میں اور دوسری بار رسولخدا (ص) کی شہادت کے بعد سرزمین بابل پر۔