22/ ربیع الاول سن 4 / ھ ق کو رسولخدا (ص) کی مدینہ کے یہودیوں سے ایک جنگ ہوئی جسے غزوہ بنی نضیر کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنی نضیر رسولخدا (ص) کے ہم پیمان شمار ہوتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنے معاہدہ کو توڑ دیا اور پیغمبر اکرم (ص) کی قتل کی سازش رچی تو یہ جنگ ہوئی۔ جنگ بنی نضیر رسول اکرم (ص) کے غزوات میں سے ایک غزوہ ہے۔ رسولخدا (ص) کی یہودیوں سے یہ دوسری جنگ ہے ۔ بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریضہ مدینہ میں ساکن یہودی قبیلہ تھے اور یہ سارے قبائل رسولخدا (ص) کے ہم پیمان شمار ہوتے تھے کہ ان تینوں قبائل نے عہد شکنی کی اور اپنے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑ دیا۔ یہ جنگ مسلمانوں کی کامیابی اور بنی نضیر کو مدینہ سے نکال باہر کرنے پر تمام ہوئی۔
بنی نضیر قبیلہ اسلام سے پہلے (یثرب) مدینہ میں ساکن تھا؛ ان لوگوں کے وجود کے بارے میں مختلف اور متفاوت روایات ہیں کوئی کہتا ہے یہ جدام قبیلہ کا ایک خاندان ہے جو یہودی ہوگیا تھا اور نضیر پہاڑ کے دامن میں سکونت اختیار کئے ہوا تھا۔ دوسری روایت نے ہارون بن عمران کی نسل سے جانا ہے۔ مدینہ میں ساکن بنی نضیر اور یہودیوں نے کافی دولت جمع کی۔ پھر اوس و خزرج نے یہودیوں پر غالب آنے کے لئے غسانیان سے مدد مانگی ۔ یہ لوگ اپنی فوج کے ساتھ مدینہ آئے اور بہت سارے یہودیوں کو مار ڈالا اس کے بعد اوس و خزرج یہودیوں پر مسلط ہوگئے۔ بعد میں بنی نضیر نے اوس و خزرج کے جھگڑے میں اوس کی طرفداری کی۔
اسلام کے ظہور کے قریب جنگ احد سے پہلے، بنی نضیر قبیلہ ظاہرا ابوسفیان سے رابطہ رکھتا تھا۔ پھر رسولخدا (ص) کی مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بنی نضیر دیگر یہودیوں کی طرح مسلمانوں سے معاہدہ کیا یعنی صلح و آشتی کا عہد کیا کہ اگر مدینہ پر دشمنوں کا حملہ ہوگا تو ہم لوگ مسلمانوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں گے اور کفار قریش کی مالی اور جانی تحفظ اور ان سے تجارتی تعلقات رکھنے سے اجتناب کریں گے اور جب بنی نضیر نے اپنا عہد توڑ دیا تو غزوہ بنی نضیر ہوا۔
رسولخدا (ص) نے عبداللہ بن مکتوم کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور حضرت علی (ع) کی سپہ سالاری میں ایک لشکر کی مدد سے 15/ دن بنی نضیر کو محاصرہ میں رکھا۔ محاصرہ کے دوران یہودیوں نے پیغمبر (ص) کے خلاف پروپیگنڈہ کردیا که آنحضرت (ص) حضرت علی (ع) کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔ آخر کار یہودی گروہ تسلیم ہوا اور ان لوگوں نے قبول کیا کہ اسلحہ، سونے اور چاندی کے بغیر صرف ایک اونٹ پر سامان لاکر مدینہ سے نکل جائیں گے۔
قرآن کریم مشرکین کے بعد یہودیوں کو مسلمانوں کا سب سے خطرناک اور بدترین دشمن جانتا ہے کیونکہ یہودیوں نے اسلام کو نابود کرنے اور رسولخدا (ص) کا خاتمہ کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے رسولخدا (ص) کی ہجرت کے آغاز ہی میں آنحضرت سے صلح کا معاہدہ کرلیا۔ مسلمانوں کو ہمیشہ ان سے ہوشیار رہنا چاہیئے اور دقت کے ساتھ ان کی سازشوں، چالوں اور مکاریوں کا جائزہ لینا چاہیئے اور ان کے خطرناک منصوبوں سے آگاہ رہ کر اپنے دفاع کے لئے تیار رہنا چاہیئے۔