دہشت گردی کے ہتھکنڈے سے عاری امریکہ کا تصور
تحریر: ہادی محمدی
اگر ہم امریکہ کو مغرب اور مغربی تاریخ کا نچوڑ تصور کریں تو اس کی بنیادیں ان برطانوی لالچی تاجروں نے فراہم کی ہیں جنہوں نے سمندر کے راستے برصغیر پاک و ہند کی دولت لوٹ لوٹ کر اپنی بنیادیں مضبوط کی تھیں۔ برطانیہ کے ان تاجر نما لٹیروں نے اپنی لالچ اور طمع کی پیاس بجھانے کیلئے ہر جگہ وہاں کے مقامی باسیوں کے خلاف جنگ کی آگ جلائی ہے۔ ان کی لگائی ہوئی اس آگ نے شمال سے لے کر جنوب تک پوری دنیا کو اپنی حرارت سے متاثر کیا ہے اور اس کے شعلے اب بھی مغربی طاقتوں کے مجرمانہ اقدامات اور دہشت گردی کو فروغ دینے کی صورت میں روشن نظر آتے ہیں۔ یہ مغربی حکمران اور سیاست دان جو اب پینٹ کوٹ اور ٹائیاں لگا کر خود کو مہذب ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں حقیقت میں ابھی لٹیرے اور مجرم ہیں۔ البتہ اس قدر بے حیا ہو چکے ہیں کہ اپنے مجرمانہ اور غیر انسانی اقدامات پر پردہ ڈالنے کیلئے دوسروں پر دہشت گردی اور وحشیانہ پن کا الزام عائد کرتے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ اس وقت ان کے زیر تسلط میڈیا کا بھی پوری دنیا پر راج ہے اور انہوں نے ایک میڈیا لابی بنا رکھی ہے۔
امریکہ کشف ہونے کے بعد گذشتہ چند صدیوں کے دوران اس مغربی تہذیب و تمدن کے نچوڑ کے ہتھکنڈوں میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ پیچیدگی اور ترقی آئی ہے۔ اس استعماری طاقت نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے استعماری ہتھکنڈوں کو بھی ترقی دی ہے تاکہ آج کے پیچیدہ حالات میں بھی دوسری قوموں کی لوٹ مار جاری رکھ سکے اور ان پر اپنا رعب جما کر بدمعاشی کر سکے۔ انہی ہتھکنڈوں کی مدد سے آج امریکہ دنیا بھر کے دیگر خودمختار اور آزاد ممالک میں بے جا مداخلت کے کے اپنی چودھراہٹ جمانے میں مصروف ہے۔ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کافی عرصے بعد ایک بار پھر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ مشرق وسطی خطے میں 8 کھرب ڈالر خرچہ کرنے کے باوجود کچھ اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ اس کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ کا یہ متنازعہ صدر گردن تک شدید اقتصادی مشکلات اور کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال میں پھنسا ہوا ہے۔ درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان امریکہ کی خارجہ پالیسی بنانے والے ان درپردہ اداروں کیلئے ہے جو ان پر یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ عراق میں داعش ایک بار پھر کیوں سر اٹھانے لگی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کو اس سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر اعلانیہ اور سرکاری طور پر امریکی ہوائی جہازوں کے ذریعے شام اور عراق کے سرحدی علاقوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس سوال کا جواب بھی دینا چاہتے ہیں کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے عراق کے خام تیل سے مالا مال علاقوں پر بھرپور یلغار کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی حکام بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ وہ عراق سے فوجی انخلا کا ارادہ نہیں رکھتے اور عراقی حکومت کو اپنے موقف میں پسماندگی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کیلئے انٹیلی جنس، سیاسی اور میڈیا ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ عراق میں بدامنی پھیلانے اور نفسیاتی جنگ شروع کرنے کا سہارا بھی لے چکے ہیں لیکن وہ بہت اچھی طرح اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ موجودہ نامزد وزیراعظم مصطفی کاظمی کے ذریعے اپنی مطلوبہ کابینہ عراق پر مسلط نہیں کر سکتے۔ امریکی حکام جانتے ہیں کہ وہ تمام تر مالی اور سیاسی اخراجات اور حتی اپنی حیثیت خطرے میں ڈالنے کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائیں گے۔
لہذا آخرکار امریکی حکام نے اپنا حقیقی چہرہ عیاں کرتے ہوئے مغربی تہذیب و تمدن کا اصلی ہتھکنڈہ بروئے کار لانے کا فیصلہ کر لیا جو دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول پر مشتمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داعش کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور اب اس میں اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی طاقت نہیں ہے۔ لہذا امریکی حکام نے سابق بعث پارٹی کے بچے کھچے عناصر اور کرد اکثریتی علاقوں میں ان کے وسائل کی مدد سے عراق کی مسلح افواج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا ہے۔ البتہ ان اقدامات میں امریکہ کی اسپشل فورسز بھی شریک ہیں۔ گوریلا جنگ کیلئے مخصوص علاقوں کا بہت سوچ سمجھ کر انتخاب کیا گیا ہے۔ اگر ہم عالمی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ مشرق وسطی کے وسط میں اسرائیل جیسی غاصب صہیونی رژیم کسی طور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش سے کم نہیں ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے گذشتہ صدی اس داعش کی بنیاد رکھی تھی تاکہ اگلی ایک صدر تک خطے میں مغربی پالیسیوں اور سیاسی اہداف کی راہ ہموار ہو سکے۔ یعنی داعش اور صہیونزم امریکہ کیلئے ایک ہی کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہاں یہ اہم سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر مغرب اور امریکہ کے پاس دہشت گردی کا ہتھکنڈہ نہ ہوتا تو اس وقت ان کی کیا صورتحال ہوتی؟