بی بی سی کے الزام پر حمید انصاری کا جواب (پہلا حصہ)

بی بی سی کے الزام پر حمید انصاری کا جواب (پہلا حصہ)

خبر آنلائن کی رپورت کے مطابق تنظیم و نشر آثار حضرت امام خمینی (رح) اداره کے اعلی عہدیدار جناب حمید انصاری نے فارسی زبان میں بی بی سی کے "حفظ نظام کے لئے الزام" کے عنوان سے نشر ہوئے ڈاکومنٹس پر رد عمل ظاہر کیا

بی بی سی کے الزام پر حمید انصاری کا جواب (پہلا حصہ)

 

خبر آنلائن کی رپورت کے مطابق تنظیم و نشر آثار حضرت امام خمینی (رح) اداره کے اعلی عہدیدار جناب حمید انصاری نے فارسی زبان میں بی بی سی کے "حفظ نظام کے لئے الزام" کے عنوان سے نشر ہوئے ڈاکومنٹس پر رد عمل ظاہر کیا۔

تنظیم ونشر آثار امام خمینی (رح) ادارہ کی جانب سے لکھی گئی عبارت درج ذیل ہے:

اگرچہ بی بی سی کا یہ پروگرام تکراری ہوںے کے اعتبار سے قابل ذکر نہیں ہے لیکن حقیقت واضح کرنے اور شبہوں کا جواب دینے کے لئے اس کے اہم نکات کو بیان کرنا، ضروری ہے؛ کیونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس پروگرام کی وجہ سے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ موجودہ تنقید اس پروگرام کی روشنی میں جو امام خمینی (رح) کی تقریرات سے اخذ کیا گیا تھا کو تین حصوں میں ہم پیش کریں گے کہ اس پروگرام کرنے والے نے کیا نتیجہ نکالا ہے اور کیا دعوی کیا ہے!

اگرچہ ان اغراض و مقاصد کا واضح محور اس پورے پروگرام پر مشتمل ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ تحقیق میں بے طرف ہوکر متن کو پیش نہیں کیا گیا ہے جبکہ ایک محقق کو غیر جانبدار ہو کر کسی بارے میں فیصلہ کرنا چاہیئے اور نظر دینی چاہیئے۔ لہذا اصول تحقیق کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے اس تحقیق کی کوئی وقعت نہیں ہے اور قابل اعتبار نہیں ہے، جس طرح سیاسی غلبہ اور یکطرفہ قضاوت اور کوئی رائے نہ دینے کی وجہ سے اعتبار سے خارج ہے کیونکہ اس میں ایک مخالفت کی بھی نظر نہیں ہے۔

البتہ واضح رہے کہ انگلینڈ کے بی بی سی خبررساں ایجنسی کے پروگرام میں ان اصول کی رعایت نہیں ہوئی کیونکہ اس نے امام خمینی (رح) اور جمہوری اسلامی ایران  پر حاکم نظام و سسٹم اور ایرانی قوم کے بارے میں پروگرام پیش کیا ہے وہ بے جا اور بکواس ہے۔ اس پروگرام کے ایک مقرر کا یہ دعوی کہ امام خمینی (رح) کا نظریہ "نظام کی حفاظت یا حفظ اسلام ہر قیمت پر واجب ہے"،  قائل ہر قیمت سے مراد، اخلاق مخالف ہر عمل، تہمت، غیبت، جھوٹ، کسی کو تنقید کرنے والوں اور حکومت مخالفین بتاتا ہے۔ اور یہ ایک صاف جھوٹ اور بہت بڑا الزام ہے۔ کیونکہ امام خمینی کے کسی اثر میں نہ صراحت کے ساتھ اور نہ ہی اس کے ضمن میں اس طرح کی عبارت اور تعبیر نہیں ہے۔ اور اس طرح کی کوئی بات نہ آپ کی رفتار و گفتار میں تھی اور نہ ہی آپ کی تالیفات اور اثار میں ہیں بلکہ امام خمینی (رح) کے آثار اور زندگی میں موجود تمام سندیں اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں۔

اس پروگرام کا ایک دعوی یہ ہے کہ موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رح) کی جانب سے شائع شدہ کتاب ولایت فقیہہ میں امام کی تقریر کے بعض پیراگراف کو حذف کردیا گیا ہے۔ یہ دعوی بے بنیاد اور سفید جھوٹ ہے۔ سن 1970ء سے 1993ء تک اس کتاب کے ہزاروں ایڈیشن ہوئے ہیں اور وہ امام کے چاہنے والوں اور ماننے والوں کے گھروں اور لائبریریوں میں موجود ہیں اور اس سفید جھوٹ اور بے بنیاد الزام کو رد کرنے کے لئے کافی ہیں۔ دوسری بات کے امام کی باتوں میں کاٹ چھنٹ کردی گئی ہے اور امام کی تقریر میں اس جملہ کے پہلے اور بعد کی عبارتوں کو حذف کردیا گیا ہے جبکہ اگر حذف نہ کیا جاتا تو آپ کی مراد سمجھنے میں آسانی ہوتی اور کوئی ابہام نہ رہ جاتا اور اس طرح اس پروگرام میں موضوع اور شرائط کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔ اور یہ کام غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ ہے اور اس بے تکی حرکت سے واضح ہے کہ اس پروگرام کے بنانے والے جو کچھ کرتوت کیا ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ حقیقت کے خلاف، بے بنیاد اور کذب محض ہے۔ بی بی سی کا (جمہوری اسلامی نظام کی تشکیل سے 10/ سال پہلے) امام کی کسی بات سے استناد کرنا بھی مضحکہ خیز ہے اور اسی طرح یہ بات کہ امام کی باتوں سے فقہاء اور مراجع پر بہتان، تہمت اور غیبت جیسے گناہ کو جواز ملتا ہے یہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ امام خمینی (رح) کا بیان درباری اور ساواکی علماء اور عمامہ رکھنے والوں کی مذمت اور نظام ظلم و جور کو اکھاڑ پھینکنے کی تاکید میں ہے نہ کہ نظام کی حفاظت کے لئے، اہم نکتہ جو بی بی سی کے تجزیہ نگار کی ہوا نکال دیتا ہے اور اس کے جھوٹ کا پرہ فاش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت سے امام کی مراد ساواکی ملاؤں اور شاہی و درباری علماء کے بارے میں ہے اور اس طرح کے دنیا دار علماء اور ظالم بادشاہوں سے وابستہ افراد کے بارے میں ہے کہ "فاتہموہم" میں استعمال ہواہے۔ بہتان اور تہمت دونوں ہے عام لوگوں کی زبان میں ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن فقہی اور حقوقی اصطلاح میں بنیادی فرق ہے۔

 

ای میل کریں