برطانوی سامراج صیہونیت سے زیادہ خطرناک کیوں؟
برطانیہ کو استعماریت کا باپ سمجھا جاتا ہے، اسلامی اقدار کو نقصان پہنچانے اور تفرقہ پھیلانے میں جتنا کردار برطانیہ کا ہے، اتنا امریکہ اور اسرائیل کا بھی نہیں، چونکہ سی آئی اے کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، تاہم جو تجربہ برطانوی استعمار کے پاس ہے، وہ صیہونیوں کے پاس بھی نہیں۔ اٹھارویں صدی سے پہلی جنگ عظیم تک برطانوی سامراج دنیا کا سب سے بڑا استعمار بن گیا تھا، تاج برطانیہ پر سورج غروب نہ ہونے کے اعزاز کا حامل سمجھا جاتا تھا، برصغیر سے افریقہ تک برطانوی تسلط کے دورانیے کی ایک بڑی اور بھیانک تاریخ ہے، پورے براعظم پر تسلط کیلئے طویل المدتی منصوبے کے تحت جو سازشیں کی گئیں، اگر ہم ان سازشوں اور برطانوی سامراج کی تاریخ کو ماضی سے حال کے تناظر میں دیکھیں تو پوری کہانی کچھ اسطرح سمجھ میں آجائے گی۔
مثال کے طور پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے بھی کم رقبے پر محیط ایک چھوٹی سی سلطنت کی دنیا کے ایک تہائی حصے پر اپنی حکومت کیسے قائم ہوئی اور ڈیڑھ صدی تک کامیابی کے ساتھ کیسے قائم رہی؟ دنیا کے ایک کروڑ مربع کلومیٹر حصے کو باآسانی اپنے کنٹرول میں کیسے رکھا؟ اس دوران اسلامی ممالک کو کس طرح تقسیم کیا گیا اور اسرائیل کا نحس وجود کیسے عمل میں لایا گیا؟ یہ تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ صرف برصغیر پر ہی برطانوی تسلط کے منظرنامے کو دیکھا جائے تو یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ تاج برطانیہ کے قبضے کے پیچھے طاقت سے زیادہ سازشی عوامل زیادہ کار فرما نظر آتے ہیں۔
مثال کے طور پر چائے کا کاروبار کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجربہ بہت کامیاب نظر آتا ہے، جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ برصغیر میں برطانیہ کیلئے لڑنے والے برطانوی فوج سے زیادہ مقامی لوگ تھے، کیونکہ ان لوگوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی میں خوب مراعات کے ذریعے غیر محسوس طریقے سے برطانوی سامراج کا غلام بنایا گیا تھا، انہی لوگوں سے میر جعفر اور میر صادق کو پیدا کیا گیا، انہی کے ذریعے برطانوی سپاہیوں کو خوب آکسیجن مہیا ہوگئی۔ کسی علاقے کے چند لوگوں کو با اثر بنا کر پھر انہیں خوب نواز کر ان کے ذریعے ایک پورے علاقے کو زیر تسلط رکھا گیا۔ اس دوران برطانوی استعمار نے سازشوں کے نت نئے طریقے نہ صرف دریافت کیے بلکہ وسیع تجربہ بھی حاصل کیا، یہ تجربہ آج عالم اسلام کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔
مختلف مذاہب اور گروہوں میں نت نئے خرافات پیدا کرنے اور ان کو منتشر کرنے کی بھی پوری داستانیں موجود ہیں۔ بدنام زمانہ برطانوی جاسوس ہمفرے اپنے اعترافات میں ایک جگہ لکھتا ہے: ''عراق جانے سے پہلے سیکرٹری نے اپنی ایک نشست میں مجھ سے کہا، ہمفرے! تم جانتے ہو کہ جنگ اور جھگڑے انسان کیلئے ایک فطری امر ہیں اور جب سے خدا نے آدم کو خلق کیا اور اس کے صلب سے ہابیل اور قابیل پیدا ہوئے اختلافات نے سر اٹھایا اور اب اس کو حضرت عیسیٰ ؑ کی بازگشت تک اسی طرح جاری رہنا ہے، ہم انسانی اختلافات کو پانچ باتوں پر تقسیم کرسکتے ہیں:
1۔ نسلی اختلافات 2۔ قبائلی اختلافات 3۔ ارضی اختلافات 4۔ قومی اختلافات 5۔ مذہبی اختلافات
اس سفر میں تمہارا اہم ترین فریضہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا اور انہیں ہوا دینے کے طریقوں کو سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں جتنی معلومات بھی مہیا ہوسکیں، تمہیں اس کی اطلاع لندن کے حکام تک پہنچانا ہے، اگر تم اسلامی ممالک کے بعض حصوں میں سنی شیعہ فساد برپا کر دو تو گویا تم نے حکومت برطانیہ کی عظیم خدمت کی ہے۔''
اسلامی انقلاب کیخلاف ففتھ جنریشن وار میں برطانیہ کا ایک سیاہ کردار ہے، یہ سلسلہ انقلاب کے ابتدائی دنوں سے ہی شروع ہوا، اس دوران ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے جو پرپیگنڈا کیا گیا، اگر ہم پورے مغرب کی سازشوں کو ایک پیرائے میں دیکھیں تو تنہا برطانیہ کا کردار انتہائی بھاری نظر آتا ہے، این جی اوز اور اب ففتھ جنریشن وار فیئر میں صرف بی بی سی کے ہی کردار کو دیکھیں تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہو جائین گے۔ اگر آپ بی بی سی کو پڑھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ اس وقت ہم جنس پرستی اور جنسی تحریک پر روزانہ کوئی نہ کوئی آرٹیکل موجود ہوتا ہے اور اس طرح کی خرافات کو انسانی آزادی کا معاملہ بنا کر معاشرے میں سرایت کرنے کی کوششیں نظر آئیں گی۔
دینی اقدار میں نت نئے خرافات پیدا کرنے، نئے فتنوں کو جنم دینے، دین کی مرکزیت سے لوگوں کو دور کرنے، جنسی تحریک کو آزادی کی تحریک میں تبدیل کرنے میں جتنا کردار سی آئی اے اور صیہونی طاغوت کا ہے، اس سے دوگنا برطانوی سامراج کا ہے۔ اسلام کی سب سے بڑی اور موثر تحریک عزاداری کو مسخ کرنے، نصیریت کے فتنوں کے ابھرنے کے تانے بانے سیدھے جا کر برطانیہ سے جا ملتے ہیں۔ ماضی میں برطانوی سامراج کے تجربات کی روشنی میں آج بھی برطانوی سامراج امریکہ اور صیہونی سامراج سے زیادہ خطرناک ہے۔