امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں
طاغوتی رویہ
سارے انسان اپنے اوصاف، کارناموں اور رفتار و کردار سے پہچانے جاتے ہیں۔ خداوند عالم نے انسان کی فطرت اور سرشت میں مختلف اور جدا جدا خصلتیں رکھی ہیں کہ وہ ان کے درمیان سے گوناگوں امتحاں دے کر سرفراز اور سربلند ہوسکتا ہے۔ انہی صفات میں سے ایک صفت غرور، تکبر اور خود پسندی ہے اور اس کی سیرت و رفتار زندگی کے مختلف مرحلوں اور سطحوں میں طاغوتی ہے۔
امام خمینی(رح) فرماتے ہیں: طاغوت چاہے محمد رضا شاہ ہو یا ہم اور آپ ہوں، اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کام کرنے کا دائرہ مختلف اور جدا ہے۔ ایک شخص ظالم اور طاغوت ہے اپنی فیملی کے لئے، ایک شخص اپنے اور پڑوسی کے لئے طاغوت ہے۔ ایک شخص اپنے محلے میں طاغوت ہے۔ کوئی شہر میں کوئی صوبہ میں اور کوئی ایک ملک میں طاغوت ہے۔ اس کے طاغوت ہونے میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ کام کرنے کے دائرہ میں فرق ہے۔ جو شخص اپنے گھر میں ڈکٹیٹر اور طاغوت ہے اگر اسے موقع ملے گا تو وہ محلہ میں بھی ہوجائے گا، اگر موقع ملے تو وہ صوبے اور پورے ملک میں طاغوت و سرکش انسان ہوجائے گا۔ اور پھر اس کی ہوس کا دائرہ بڑھتا جائے گا۔ (صحیفہ امام، ج 9، ص 13)
ہم سب ہمیشہ امتحان کی منزل میں ہیں۔ کبھی کچھ لوگ سوچھتے ہیں کہ وہ اچھے اوصاف کے مالک اور نیک انسان ہیں لیکن جب انہیں کوئی ذمہ داری دے دی جاتی ہے یا پھر کسی ادارہ کے سربراہ اور مدیر ہوجاتے ہیں تو وہاں پر ان کی بری اور ناپسندیدہ خصلتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ خود پسندی کی خصلت ہم سب کے اندر پائی جاتی ہےلہذا اس کا علاج کرنا چاہیئے اور حضرت امام کی تعبیر میں اس کے حدود فرق کرتے ہیں، اس کی وسعت کا دائرہ الگ ہے۔ جس کے اندر یہ جذبہ اور خیال پایا جاتا ہے اور خود کو سنوارا نہیں ہے تو وہ یاد رکھے کہ وہ جہاں بھی جائے گا اور جس منصب اور مقام پر فائز ہوگا یہ صفت اس کے مطابق ظاہر اور نمایاں ہوگی۔ لہذا اس کا علاج انسانی اور اسلامی تربیت ہے تا کہ اس کی پیروی اور ناپسندیدہ صفت اس سے دور ہو اور وہ ایک الہی اور اسلامی انسان بن سکے اور اپنی اور دوسروں کی نجات کا سامان فراہم کرسکے۔
اگر یہ شیطانی اور طاغوتی موجود انبیاء عظام اور اولیائے الہی کے تحت فرمان نہ ہو، انبیاء کی تعلیم و تربیت میں نہ ہو تو پار اس فرد اور اس فرد میں کوئی فرق نہیں ہے جو ایک عالم اور دنیا پر مسلط ہے، اس کے اندر یہ جذبہ انسانیت نہیں ہے وہ کسی کا بھلا کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ دوسروں کے اموال اور حیثیت و آبرو کو اپنی ہوس کا لقمہ بنانا چاہتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ فرد بہتر ہے اور وہ بدتر، نہیں، بلکہ جس کا زور جتنا چلتا ہے اسی کے بقدر وہ کام کرررہا ہے، نہ اس کے اندر کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ وہ بھلا انسان بنا ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا، اس کا زور نہیں چلتا، اس کا دائرہ محدود ہے اور دوسرے کا اس کے مقابلہ میں کچھ وسیع ہے۔
خلاصہ دائرہ کار اور طاقت کا فرق ہے۔ تکبر، خود پسندی اور غرور کی روایات اور آیات میں کافی مذمت کی گئی ہے۔ عرف عام میں بھی اس طرح کی بری عادت کے حامل انسان کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا۔ اس کے دبدبہ، زور اور طاقت کے ڈر سے خاموش رہتا ہے اور اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ جبکہ انبیائے الہی نے اپنی طاقت اور افراد کی کمی کے باوجود اپنے دور کے طاغوتوں اور ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور اپنے مقصد اور مشن میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ اور دنیائے انسانیت کی نجات کا ساماں بھی فراہم کرگئے ہیں۔ حق بات کہنی چاہیئے، باطل کے خلاف آواز اٹھانی چاہیئے، اس کی چہرہ سے ظالمانہ اور مکارانہ نقاب کو اتار پھینکنا چاہیئے اور نظام عدل و انصاف کے لئے قیام کرنا چاہیئے۔