کاش تمام اسلامی ممالک ایران کی آواز میں آواز ملاتے
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت میں بیان نے ایک بار پھر اس تاثر کو نمایاں کر دیا ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی قیادت کے لیے مسلمانوں کا مفاد سب سے پہلی ترجیح ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہر ملک کی پہلی ترجیح اسکا ریاستی مفاد ہوتا ہے اور دنیا بھر کی تمام سفارتی سرگرمیاں اسی تناظر میں انجام پاتی ہیں۔ سیاست کی دنیا میں مفادات کی تین اہم قسمیں بیان کی جاتی ہیں۔ ریاستی مفادات، اسٹریٹیجک مفادات اور نظریاتی مفادات۔ دنیا کی اکثر ریاستیں اپنے ریاستی مفاد کو اولین ترجیح قرار دیتی ہیں۔ البتہ بعض اوقات اسٹریٹیجک مفاد کی وجہ سے ریاستی مفادات کو عارضی طور پر قربان کرتی ہیں تاکہ مستقبل اُن اسٹریٹیجک مفادات کی وجہ سے ریاست کے لیے زیادہ سے زیادہ مفادات کو سمیٹا جا سکے۔ نظریاتی مفاد کا تذکرہ سرد جنگ کے زمانہ میں سوشلزم اور کیپٹلزم کے تصادم کے تناظر میں ملتا ہے۔
لیکن وہاں پر نظریات کی بجائے بالآخر ریاستی مفادات ہی مقدم ٹھہرتے تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے جہاں عالمی سیاست میں ایک نئے نظام کو متعارف کر کے سرمایہ دارانہ نظاموں کو نیے چیلنجوں سے دوچار کیا ہے وہاں سفارتی میدان میں بھی دنیا کو ایک نئے افق سے متعارف کرایا ہے۔ ایران کی طرف سے فلسطین کاز کی مسلسل اور بھرپور مدد اس سفارتی پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔ آج اگر ایران اور اس کا اسلامی نظام فلسطین کے مسئلے پر سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکہ کے ایماء پر’’یوٹرن‘‘ لے لے تو ایران کے لیے ترقی و پیشرفت کے تمام بند دروازے کھل جائیں گے، لیکن ایران تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ایران ہند تعلقات کی نوعیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے افراد ہند پاک کشیدگی کی روشنی میں ایران کے ہندوستان سے تعلقات پر اعتراض کرتے ہیں، لیکن وہ اس اعتراض میں عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ہندوستان سے انتہائی قریبی تعلقات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
ہندوستان نے سخت ترین پابندیوں میں ایران کا اقتصادی میدان میں کئی بار بھرپور ساتھ دیا ہے، جبکہ پاکستان سمیت کئی ممالک امریکی دھمکیوں کیوجہ سے اپنے ملک کے فائدے کے بعض پروجیکٹ انجام دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ہندو بنیئے نے ایران سے تجارتی تعلقات قائم رکھ کر یقیناً متعدد فائدے بھی اٹھائے ہیں، لیکن اس نے کچھ خطرات بھی ضرور مول لیے ہیں۔ اسلامی ممالک تو ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ رہبر انقلاب اسلامی اور ایران کے اعلیٰ حکام نے جس دلیری اور قومی و ریاستی مفادات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جسطرح ہندوستانی مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائی ہے وہ چھتوں سے الٹی لٹکی سیاسی چمگادڑوں اور ایرانوفوبیا کا شکار تجزیہ نگاروں کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ ایران سخت ترین صورتحال میں بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اپنی اٹھاتا ہے اور امت مسلمہ کے مفاد کو اپنی اولین ترجیح سمجھتا ہے۔