جواد ظریف

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ٹرمپ اور داعش کے علاوہ کوئی خوش نہیں ہوا، جواد ظریف

نوم چومسکی: جنرل سلیمانی پر حملہ "بین الاقوامی دہشت گردی" تھا

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر ٹرمپ اور داعش کے علاوہ کوئی خوش نہیں ہوا، جواد ظریف

اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے بھارت کے شہر نئی دہلی میں ہونیوالی رائیسینا ڈائیلاگ کانفرنس 2020ء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ واقعات میں ہمارے خطے کے حوالے سے امریکہ کی انتہائی پریشان کن سوچ ابھر کر سامنے آئی ہے جسکے حوالے سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو بجائے خطے کی عوام کے زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کے، صرف اپنے ہی نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔

محمد جواد ظریف نے جنرل قاسم سلیمانی کو شہادت سے ہمکنار کرنے کی امریکی دہشتگردانہ کارروائی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب انہوں نے ہمارے ایک انتہائی قابل احترام سپہ سالار کو عراقی سرزمین پر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناتے ہوئے عراقی خودمختاری کی دھجیاں اڑا دیں تو امریکی وزیر خارجہ نے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے، اپنے پیغام میں کسی چھوٹے سے عراقی گروہ کی ویڈیو لگائی اور لکھا کہ ہم نے خطے کو (جنرل قاسم سلیمانی سے) نجات دلوا دی ہے جس پر لوگ خوشیاں منا رہے ہیں، جبکہ یہ چیز 2 باتوں کو ظاہر کرتی ہے جو خطرناک ہیں اور جب آپس میں اکٹھی ہو جائیں تو انتہائی خطرناک ہو جائیں گی یعنی: نادانی اور گستاخی۔

ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ جب کوئی نادان شخص گستاخ ہو جائے تو پھر بڑے بڑے حادثات رونما ہوتے ہیں خاص طور پر تب جب بہت زیادہ طاقت بھی اسکے اختیار میں ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہی عوامل ہیں جو ہمارے خطے میں ہرج و مرج کا موجب بنے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی داعش کیخلاف مقابلے میں تنہاء موثر قوت تھے جبکہ انکی ٹارگٹ کلنگ سے ٹرمپ اور داعش کے علاوہ کوئی خوش نہیں ہوا جبکہ صرف بھارت میں ہی 430 عوامی مقامات پر انکے لئے سوگ منایا گیا ہے۔


نوم چومسکی: جنرل سلیمانی پر حملہ "بین الاقوامی دہشت گردی" تھا

نوم چومسکی

ابنا۔ امریکہ کے ماہر سیاسی تجزیہ کار  " نوم چومسکی" نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل بین الاقوامی دھشتگردی کا مصداق ہے بلکہ اس سے بھی بدتر عمل ہے۔

انہوں نے امریکہ کے اس اقدام کو بین الاقوامی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا: "بین الاقوامی قانون ان امور پر بالکل واضح ہے۔" یہ قوانین غیر معمولی معاملات کے علاوہ ، بین الاقوامی امور میں دھمکی یا طاقت کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہیں۔

نوم چومسکی نے دی انڈیا ٹائمز کے ساتھ گفتگو میں کہا ، "میرے خیال میں اس بات کی کوئی علامت نہیں ہے کہ آنے والے ہفتوں یا مہینوں میں مغربی ایشیاء میں امریکی فوج کی موجودگی ختم ہوجائے گی۔"

انہوں نے کہا ، "حالیہ برسوں میں اس خطے میں امریکی فوج کی موجودگی ختم نہیں ہوئی ہے ، اور مجھے اس خطے سے امریکی فوج کے نکلنے کی بھی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ البتہ کسی بھی چیز کی توقع کرنا حالات پر منحصر ہے۔ 

تاہم ، امریکی ماہر لسانیات نے کہا ، خطے پر موجودہ امریکی فوجی طاقت 2003 کے مقابلے میں بہت کمزور پڑ چکی ہے۔ یہ طاقت ۲۰۰۳ میں عراق پر حملے کے بعد زوال کا شکار ہو گئی۔

ای میل کریں