اسلامی انقلاب کی یادیں
انقلاب کے دنوں کی یادیں ناقابل فراموش ہیں۔ میری عمر کی بہترین یاد وہ دن ہے جب ہم لوگ جوش و خروش کے ساتھ سڑکوں پر آتے تھے اور شاہی ظالمانہ نظام کے خلاف سرگرمی دکھاتے تھے اور لوگ اتحاد و یکجہتی کے ساتھ ہم آواز ہو کر "شاہ مردہ باد" کے نعرہ لگاتے تھے۔ ساری آوازیں تمام واقعات سے متعلق داہنے اور بائیں سے ایک شخصیت کے ارد گرد چکر لگاتی تھیں۔ انقلاب کی ذمہ داری امام خمینی (رح) کی رہبری کے کاندھوں پر تھی اور ہم لوگ انقلاب کی کامیابی تک نہ کسی شخصیت کو اور نہ ہی کسی واقعہ کو جانتے تھے کہ وہ امام خمینی (رح) کی قیادت کو قبول نہ کرتا ہو۔
11/ فروری سن 1979ء کو انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا، اس وقت قارچ کی طرح واقعات اور گروہوں آج کے اسم و رسم یا داہنے اور بائیں کے نام سے سر اٹھایا۔ ہم لوگ جتنا آگے بڑھتے جاتے تھے ان کی حقیقت کھلتی جاتی تھی۔ مخالفت بڑھتی گئی۔ اس کے درمیان کچھ گروہ تھے بائیں منہ کرکے ہاتھوں میں اسلحہ اٹھالیا اور نوبنیاد انقلاب کے ساتھ مسلحانہ مقابلہ کرنے لگے۔ جیسے ترکمن صحراء کا غائلہ اور 1982ء کا واقعہ جو ایران کے کمیونسٹوں کی اتحادیہ کی طرح انجام پارہاتھا اور ایران کے کردستان کا فساد جو کردستانی کو جمہوری نوازوں کی طرف سے خودمختاری کا خواہاں ہوئے تھے اور مرکزی حکومت سے قومی پارٹیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں و غیرہ ۔ ان مشکلات کا جز ہیں جس سے نو بنیاد جمہوری حکومت کو سامنا تھا۔
اس نفسی نفسی کے عالم میں مسعود رجوی ایک طرف ، آیت اللہ خمینی کو امام کہتا تھا اور دوسری طرف سے 20/ جون سن 1981ء سے پہلے تک نو بنیاد حکومت کے تدارک کی کوشش کی جارہی تھی۔ ملیشیا تشکیل مسلح بازو کے عنوان سے مقصد تک پہونچنے کی کوشش کررہی تھی۔ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی دنوں میں اسلحہ جمع کرنے کی فکر میں تھے۔ خود رجوی نے اپنی افواج سے کہا تھا کہ اصلی انقلابی ابھی نہیں آیا ہے۔ در حقیقت رجوی فرقہ کا ظاہر و باطن ایک نہیں تھا۔ اس کا سیاسی موقف امام خمینی (رح) کے سیاسی اور مذہبی نظریات کے مقابلہ میں الگ تھا اسی وجہ سے ایران میں انھیں منافقین کے نام سے یاد کیا گیا۔ مجاہدین ادارہ نے بھی 20/ جون سن 1981ء میں مسلحانہ کام کرنے لگے اور اس کے دوران وہ لوگ آیت اللہ خمینی (رح) کی مذہبی حکومت کو سرنگوں کرنا چاہتے تھے لیکن ناکام ہوگئے اور اپنی بے وقعت جان کو بچانے کے لئے ایران سے باہر جانے پر مجبور ہوئے تا کہ انھیں کوئی نقصان نہ ہو، اس ے بعد خفیه طور پر بنی صدر کے ہمراہ ایران سے نکل گئے اور فرانس میں جا کر پناہ لے لی۔
رجوی، بنی صدر کے ساتھ مل کر فرانس میں کچھ دیگر ایرانی حکومت مخالف طاقتوں کی مدد سے مقابلہ کے عنوان سے قومی کمیٹی بناتے ہیں لیکن کچھ دنوں بعد بنی صدر، رجوی کی کمیٹی سے الگ ہوجاتا ہے اور اسی طرح دیگر پارٹیاں اور افراد اس کمیٹی سے علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ آخر کار رجوی صدام کی موافقت سے فرانس سے عراق آجاتا ہے۔
رجوی عراق جانے سے پہلے پہاڑی علاقوں میں فتنہ و فساد کی آگ لگائے اس کے بعد اس نے آزادی بخش فوج کے نام سے اعلان کرتا ہے تا کہ صدام اس کے ساتھ ساتھ ایران کی عوام سے اپنی دشمنی جاری رکھے۔
رجوی دہشت گرد نے صدام کی خدمت گذاری اور غلامی کرنے کے عنوان سے ایران کی معلوماتی جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش کی اور اس نے اس کے لئے بے شمار جرائم کئے جو غایت درجہ شرمناک ہے۔ جیسے ، آفتاب اور چلچراغ فوجی کارکردگی صدامی فوج کی مدد سے عملی ہوئی۔ رجوی کا آخری شرمناک کام ایران کے پنی اور اس کی مٹی کے ساتھ "مرصاد" نامی کرتوت تھا جو ناکام ہوگیا اور رجوی کے بقول 1400/ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور آخر کار پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔ اس جنگی مڈبھیڑ کا منظر اس طرح تھا کہ عقب نشینی میں قتل عام ہوا اور زیادہ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اس کے باوجود رجوی باز نہیں آیا ہے اور جب اشرف نامی چھاونی پر واپس آیا تو کہا ہم ایرانی نظام پر سنگین ضرب لگانے میں کامیاب ہوسکیں ہیں۔ اس کے دوران ایران اور عراق کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ہوجاتا ہے اور اقوام متحدہ کمیٹی کی نظارت میں 20/ اگست سن 1988ء کو ایران پر کلی طور پر حملہ کرنا بند ہوجاتا ہے اور مسعود رجوی جل گیا۔
دھوکہ باز رجوی جو خود ایران اور عراق جنگ کی پیداوار تھا وہ ایک جلے ہوئے پتے کی طرح ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر اپنی آزادی بخش فوج کے ذریعہ ایران پر حملہ نہ کرسکا۔
ان دنوں رجوی کا زندہ ہونا بھی شک کے دائرہ میں تھا؟ کیونکہ وہ سن 2003ء سے لوگوں کی نظروں سے غائب رہا ہے اور صرف اس سے منسوب زبانی پیغام موجود تھا۔ اگر وہ زندہ ہے تو وہ خود سے پیغام کیوں نہیں دیتا؟ اور اگر زندہ نہیں ہے تو رسمی طور سے اس کی موت کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟
رجوی خود رہبری انقلاب کا جنون رکھتا تھا وہ انقلاب کے ساتھ مدارا کرنے پر تیار نہیں ہوا اور اقتدار تک پہونچنے کے لئے ہر ذلت و رسوائی کا سامنا کرتا رہا۔ حکومت کے سربراہوں کو قتل کرنے لگا۔ جمہوری پارٹی کو بم سے اڑا دیا اور بے حد و حساب قتل اور مڈر کرائے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے احمقانہ کاموں کو کرنے لگا۔ وہی مشہور نعرہ کہ مقصد وسیلہ کی توجیہہ کرتا ہے اور سلسلہ میں مزدوروں، کسانوں، چرواہوں اور جوتا بنانے والوں کو بھی نہیں چھوڑا کیونکہ وہ اقتدار کا بھوکا تھا۔
رجوی چونکہ باطل پر تھا کبھی اپنے مقصد تک نہیں پہونچ سکا لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد رہبری کی کرسی حاصل کرنے کی فکر میں لگا گیا لیکن کامیابی نہیں ملی اور انہی ایام سے اپنی افوام کو 6/ ماہ اور ایک سالہ وعدہ کرتا رہا کہ عنقریب حکومت ایران سرنگوں ہوجائے گی اور ہم لوگ ڈیموکریٹک جمہوری قائم کریں گے۔ البہ یہ وعدے اس طرح چلتے رہے اور جب ہم لوگ اشرف چھاؤنی میں تھے تو ہر سال حکومت ایران کے گرنے کا وعدہ کرتا اور اب انقلاب کو 41/ سال گذر رہے ہیں لیکن وہ حکومت کی سرنگونی کا وعدہ دیتا رہا۔ درحقیقت 41/ برسوں تک بور ہوتا رہا اور کوئلہ کی طرح روسیاہ ہو کر رہ گیا۔