شاہ کا اپنی بیوی کے ساتھ فرار
تقریبا 40/ سال قبل اسی دن اور تاریخ یعنی 16/ جنوری سن 1979ء کو قتل و غارت گری اور خونین واقعات کے بعد شاہ نے اپنی بیوی فرح کے ہمراہ مصر کے "آسوان" نامی مقام پر فرار کرکے پناہ لی۔ شاہ نے بختیار کو اپنی حکومت کا وزیر اعظم بنایا اور ٹی وی پر گفتگو میں کہاتھا: ایران کی عزیز قوم کھلے سیاسی ماحول میں کہ دو سال پهلے سے یہ ماحول بنا هے، آپ ایرانی عوام ظلم و جور اور فتنہ و فساد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، میں ایرانی بادشاہ ہونے کے اعتبار سے ایرانی انقلاب ک تائید نہیں کرسکتا۔ اسی طرح شاہ نے آگے ایک تاریخی جملہ بھی کہا: آپ ایرانی عوام کا پیغام میں نے بھی سنا ہے۔
اس نابکار انسان نے ملک چھوڑتے وقت لوگوں کو یہی بتایا تھا کہ میں کچھ دنوں کے لئے سکون حاصل کرنے کے لئے جارہا ہوں کیونکہ اسے یہ امید تھی کہ وہ دھوکہ دھری اور کذب بیانی اور فریب سے امام سے صلح کرسکتا ہے لیکن ہوا اس ے برعکس یعنی اس کے فرار نے اس کی 2500/ سالہ سلطنت کے زوال کو یقینی بنادیا۔ یہاں تک کہ ایک ماہ کے کم عرصہ میں ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔
شام 7/ بجے ریڈیو نے شاہ ے ایران سے فرار کرجانے کی خبر نشر کی۔ اس خبر کے عام ہوتے ہی لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور خوشیاں منانے لگے اور اپنی کامیابی کے شادیانے بجانے لگے۔ اس دن کے اخبار نے لکھا کہ آج کی طرح عوام نے کبھی ایسا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ عالم یہ ہوا کہ پل بھر میں سڑکوں پر لوگوں کے سر ہی سر نظر آنے لگے، مسرت و شادمانی کا ایسا ماحول بن گیا کہ سڑکوں پر تل رکھنے کی جگہ نہیں تھی، عوام کی خوشیوں کے مناظر کی عکاسی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ ایران کی مظلوم اور دبی کچلی عوام کے لئے ایک نئے دن کا آغاز تھا۔ ہر شخص کو اپنی آسودہ حالی کی امید ہوگئی، ظلم و بربریت کے خاتمہ سے مطمئن ہوگئے۔
حضرت امام خمینی (رح) نے محمد رضا شاہ کے فرار سے ایک دن پہلے ایک خط میں حکومتی کونسل کے حوالہ 9/ مادے کے تا کہ جلد سے جلد استعفاء دے دیں اور امام نے پارلیمنٹ کے نمائندوں سے اس طرح استعفی طلب کیا تا کہ قوم و ملت کے غیظ و غضب کا نشانہ نہ بن سکیں۔
امام خمینی(رح) نے شاہ کے فرار کی مناسبت سے بیرونی نامہ نگاروں کو انٹرویو دیتے ہوئے انقلاب کے پروگراموں کی وضاحت کی اور کہا: شاہ کا فرار ہماری قوم و ملت کی کامیابی کا ابھی پہلا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد تو بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ قوم سے خطاب کرکے کہا: شاہ کا فرار کر جانا صرف کامیابی نہیں بلکہ ایک مرحلہ ہے۔ ہم لوگ لوٹی اور بکھری ہوئی حکومت کے وارث ہوئے ہیں، اس حکومت کے لئے بہت زیادہ جانفشانی اور عرق ریزی کرنے پڑے گی۔ دشوار منزلیں طے کرنی ہوگی، مشکلات کا طوفان آئے گا سب کو ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑے گا۔
پہلوی حکومت نے اپنے 50 سالہ دور اقتدار اور محمد رضا خان کی 30/ سالہ حکومت نے ملک کو ترقی نهیں کردیا ہے اور اس کے سارے تانے بانے بکھیر کر رکھ دئیے ہیں، ملک کی بربادی، تباہی اور فساد کی ذمہ دار انہی دو ظالموں کے سرجاتی ہے۔ لہذا اس ملک کی تعمیر اور ترقی کے لئے ملک کی ہر فرد اور طبقہ کو قیام کرنا ہوگا اور اس کا پہلا قدم اصلاح اور خرابیوں کو دور کرنا ہے۔ بی بی سی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے امام نے کہا: یہ ظالم جہاں کہیں بھی ہو اس پر مقدمہ چلنا چاہیئے۔ آخر میں ایرانی عوام کو پیغام دیا:
آپ دلیر اور بہادر امت اور قوم نے اپنی شجاعت اور بہادری ثابت کردی اور ایران کی مظلوم عوام کو بتادیا کہ قربانی اور پائیداری کے ساتھ ساری مشکلوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ خواہ مقصد اور منزل مقصود کتنی ہی دور ہو۔ شاہ کا فرار کامیابی کی ایک جھلک ہے۔ یقینا اگر قوم کی ہر فرد اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ کر ظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہو تو بڑی سے بڑی ظالم اور جابر حکومت کی چولیں ہلا سکتی ہے اور اپنی کامیابی سے دنیا کو بیدار کرسکتی ہے کہ اپنے حق کے لئے خاموش نہ رہو۔ انسانیت کا تحفظ ضروری ہے اور دنیا کے خونخوار اور ظالم حکومت سے اپنا حق مانگو اور اس لئے ہر ممکن اور ضروری اقدام کرو۔