شہید قاسم سلیمانی کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ
تحریر: محمد عسکری مقدس
کسی نے نہیں سوچا تھا کہ 22 سالہ مزدور ایک دن طلسماتی شخصیت بنے گا۔ ایران کے جنوب مشرق میں واقع جغرافیائی لحاظ سے ملک کے سب بڑے صوبے کرمان سے تعلق رکھنے والے قاسم سلیمانی 9 فروری 1957ء کو پیدا ہوئے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد بڑے بیٹے کی حیثیت سے اپنے والد حسن سلیمانی کا ہاتھ بٹانے کے لئے مزدوری شروع کی۔ واٹر بورڈ میں ملازمت ملنے کے بعد کرمان شہر میں منتقل ہوئے۔ شہید سلیمانی سے سات سال چھوٹے بھائی سہراب سلیمانی کے مطابق قاسم سلیمانی ورزش اور باڈی بلڈنگ کے شوقین اور کراٹے میں بلیک بیلٹ رکھتے تھے۔ انہوں نے کرمان شہر سے 180 کلومیٹر دور آبائی قصبے قنات ملک میں جوانوں کے لئے باڈی بلڈنگ کلب تعمیر کروایا۔ 22 ستمبر 1980ء کو صدام کی جانب سے ایران پر جنگ مسلط کرنے کے بعد کچھ عرصہ کرمان ائیرپورٹ پر سکیورٹی کے فرائض انجام دیئے۔ جنگ شدت اختیار کرنے پر فقط چھے ہفتے فوجی تربیت حاصل کرنے کے بعد کرمان کے 300 جوانوں پر مشتمل قافلے کے ساتھ جنوبی سرحدوں کی جانب چل دیئے۔
جنگ کے دوران ہی شہید قاسم سلیمانی کی قیادت میں کرمان سے ثاراللہ 41 نامی فوجی ڈویژن تشکیل دیا گیا۔ صدام کی بعثی حکومت سے 8 سال جنگ لڑی۔ 1982ء میں گرینیڈ کے دھماکے میں قاسم سلیمانی کا دایاں ہاتھ زخمی ہوا۔ درمیانی انگلیوں پر زخم کے آثار آخری وقت تک نمایاں تھے۔ 1988ء میں شہید سلیمانی کے لشکر پر کیمیائی حملہ کیا گیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ملک کی مشرقی سرحدوں پر تعیینات ہوئے اور افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ روکنے کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ 1998ء میں ملک کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے 41 سالہ سلیمانی کو سپاہ قدس کا سربراہ بنایا۔ بیرون ملک ذمہ داریاں ملنے کے بعد عوام اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہنے لگے۔ استکبار اور جرائم پیشہ افراد سے جنگ قاسم سلیمانی کی عادت بن چکی تھی۔ جنوبی لبنان میں غاصب صہیونی فوج کے خلاف مزاحمت، قدس فورس کے نئے سربراہ کے لئے پہلا چیلنچ تھا۔ حزب اللہ کے مجاہدین سے مل کر اسرائیلی فوج کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کیا، جو جنوبی لبنان سے غاصب صہیونیوں کے انخلاء پر ختم ہوا۔
عراق پر امریکی حملوں کے بعد مقامی مزاحمتی تنظیموں کے ساتھ مل کر قابض امریکی فوجیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ امریکی اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق کئی دفعہ جنرل سلیمانی کو ٹارگٹ بنانے کا منصوبہ بنایا گیا، لیکن نازک حالات کے پیش نظر عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33 روزہ جنگ کے دوران جنرل سلیمانی ایک بار پھر جارح صہیونی افواج سے نبرد آزما ہوئے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور کمانڈر عماد مغنیہ کے ساتھ راتوں کو جاگ کر اسرائیل کے خلاف جنگ کا سناریو تیار کیا۔ حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیلی ہزیمت میں جنرل سلیمانی کا کردار اسرائیل میں زبان زد عام ہے۔ اس عرصے میں عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف کارروائیوں میں کمی دیکھی گئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد عراق واپس آئے اور امریکی فوجی حکام کو خط لکھا "میری عدم موجودگی میں چند راتیں سکون سے سوئے ہوں گے۔ درحقیقت اس دوران لبنان میں مصروف عمل تھا۔"
2011ء میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شورش کے بعد 2013ء میں دہشت گرد تنظیم داعش نے شام اور عراق میں سر اٹھانا شروع کیا۔ جنرل سلیمانی دہشت گردی اور تکفیری طاقتوں کے خلاف جنگ میں کود پڑے۔ دونوں ممالک میں اگلے محاذوں پر جاکر جنگ کی۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک دفعہ شام میں جنگ کے دوران راستہ بھٹکنے سے داعش کے نرغے میں آئے، لیکن قیافہ بدل کر دشمن سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ 2017ء میں عراقی سرحد کے نزدیک واقع شام کے شہر البوکمال میں دہشت گردوں کے خلاف آخری معرکہ سر کرنے کے بعد سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ استکباری سرمائے سے لگائے گئے داعش کے ناپاک درخت کی جڑیں کاٹ دی گئی ہیں۔ عراقی حکومت کی درخواست پر ملک سے تکفیریوں اور دہشت گرد تنظیموں کی جڑیں اکھاڑنے پر وزیراعظم حیدر العبادی نے انٹرنیشنل اکنامک فوم سے خطاب کے دوران خصوصی طور پر جنرل سلیمانی کا شکریہ ادا کیا۔
دہشت گردی کے خلاف اعلیٰ خدمات پر 2019ء میں آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کو ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز تمغہ ذوالفقار عطا کیا۔ بین الاقوامی جریدے دی گارڈئین، فارن پالیسی اور ٹائم میگزین انہیں دنیا کے بااثر ترین افراد میں شامل کرچکے ہیں۔ خطے میں جنرل سلیمانی کی شہرت اور مقبولیت کے بارے میں امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے سابق لبنانی نژاد ایجنٹ علی صوفان کا ماننا ہے کہ اگر جنرل سلیمانی سڑک کے راستے ایران سے نکلیں تو اسرائیل کی سرحد تک کوئی روکنے والا نہیں ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی اور اسرائیلی حکام جنرل سلیمانی کی موت کو ترستے تھے۔ دشمن نے تین دفعہ ایران کے اندر اور اس سے زائد مرتبہ بیرون ملک ان کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ جنرل سلیمانی اپنے آخری سفر میں سعودی عرب کے لئے ایرانی حکومت کا رسمی جواب فریق ثالث عراق کے حوالے کرنے کے لئے بغداد پہنچے تھے۔ ائیرپورٹ کے باہر امریکی ڈرون طیارے نے ان کے قافلے کو نشانہ بنایا۔
شہید سلیمانی کا جسد خاکی عراق کے مقدس شہروں میں تشییع کے لئے لے جایا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عراقی عوام نے جنازے میں شرکت کرکے شہید سلیمانی کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ ایران کے پانچ شہروں میں دسیوں لاکھ افراد نے تشییع میں شرکت کی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق تہران میں 50 لاکھ افراد شہید سلیمانی کی تشییع کے لئے آئے۔ نماز جنازہ کے بعد انقلاب اسکوائر سے آزادی اسکوائر تک 12 کلومیٹر کا سفر طے کرنے میں 6 گھنٹے لگے۔ رشیا ٹوڈے سمیت بین الاقوامی میڈیا نے جنرل سلیمانی کی تشییع کو تاریخی قرار دیا۔ 40 سال علاقائی اور عالمی طاغوت کی نیندیں حرام کرنے والا مجاہد کمانڈر منگل کی رات اپنی وصیت کے مطابق آبائی قصبے میں والدین کے کنارے ابدی نیند سوگیا۔