دریا و سراب
دیوان امام خمینی (رح)
چھوڑ و ہمیں ، اٹھانے دو یہ رنج بے حساب
با قلب پارہ پارہ و با سینہ کباب
مدت ہوئی کہ ہوں میں غم ہجر دوست میں
مرغ درون آتش و ماہی برون آب
اس رنج و زندگی سے مجھے کچھ نہ مل سکا
غرق بطالت آگئی پیری پس شباب
کچھ درس وبحث سے نہ بر آئی مراد دل
پہنچاتا کیسے ساحل دریا پہ یہ سراب
جو کچھ کیا مطالعہ، جو کچھ پڑھا لکھا
کچھ بھی نہ تھا سوائے حجاب پس حجاب
ہاں اے عزیز! عہد جوانی میں ہوشیار
پیری میں تجھ سے کچھ بھی نہ ہوگا سوائے خواب
یہ اہل جہل، دعوئے ارشاد ہے جنھیں
اک '' میں '' ہے انکے خرقہ میں ، باقی علی الحساب
ہم غیر کے کمال کو اور اپنے نقص کو
پنہاں کیے ہیں ، جیسے کہ پیری پس خضاب
دفتر یہ چاک کردے اور اب دم نہ مارنا
تا گے کلام بیہدہ، گفتار ناصواب