دریائے جمال
زلف چہرے سے ہٹا، تابش رخسار دکھا
یہ جہاں جائے، مع خرقہ، سوئے دار فنا
راہ کوچہ تری ملتی نہیں اے قبلہ دل
ورنہ میں کس لیے جاؤں سوئے وادی منا
بہرہ ور ہے جو، صفائے گل رخ سے تیرے
رخ حرم کا کرے کیوں ، جائے وہ کیوں سوئے صفا
طاق ابرو ترا، محراب دل و جاں میرا
میں کہاں ، تو کہاں ؟ اور زاہد و محراب کجا
ملحد و عارف و درویش و خراباتی و مست
سب ترے تابع فرماں ہیں ، تو حاکم سب کا
خرقہ صوفی و جام مے و شمشیر جہاد
یہ ہیں سب قبلہ نما، اصل میں تو ہے قبلہ
تو مری جان میں ہے، وصل بھی ہوگا کہ نہیں ؟
تو مری جان میں ہے، ہجر ہو کس طرح روا
ہم تو سب موج ہیں اے دوست، تو دریائے جمال
موج دریا کی بھلا کیسے نہ ہوگی دریا