صیہونی عرب حکمرانوں کے بے نقاب ہوتے چہرے

صیہونی عرب حکمرانوں کے بے نقاب ہوتے چہرے

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے حال ہی میں اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ایک پیغام بھیجا ہے

صیہونی عرب حکمرانوں کے بے نقاب ہوتے چہرے

 

تحریر: ہادی محمدی

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زاید نے حال ہی میں اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ایک پیغام بھیجا ہے جس میں مشرق وسطی میں ایک نئے تشکیل پاتے عرب اسرائیل اتحاد کی خبر دی گئی ہے۔ انہوں نے اس پیغام میں لکھا: "مشرق وسطی میں ایک نئی روایت معرض وجود میں آرہی ہے اور مسلمانوں کے ذہن میں کچھ نئے نقشے بن رہے ہیں جبکہ پرانی نفرتیں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں۔" انہوں نے اس پیغام کے ذریعے نہ صرف صیہونی حکمرانوں کے اسلام مخالف اور عرب مخالف اقدامات میں بعض عرب حکمرانوں کے خفیہ تعاون سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ اسرائیل کے ساتھ اعلانیہ دوستانہ تعلقات کی استوار پر زور بھی دیا ہے۔ عبداللہ بن زاید کا یہ پیغام اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خطے میں بعض عرب حکمران ایران کے خلاف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ اتحادی تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد سعودی حکمرانوں نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پالیسی نئی نہیں ہے بلکہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکام کم از کم گذشتہ تین عشروں سے خفیہ طور پر مختلف شعبوں میں کئی سطحوں پر اسرائیلی حکمرانوں سے تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان تعاون اس حد تک اعلی سطح پر پہنچ چکا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اسلامی مزاحمت کی تحریک حماس کے بعض اعلی سطحی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اسرائیل سے تعاون کیا ہے۔ بن زاید خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کا انٹیلی جنس، جاسوسی اور فوجی شعبوں میں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف امریکی حکام سے تعاون انتہائی اعلی سطح پر جاری ہے۔ متحدہ عرب امارات نے آج صیہونی حکام کے دفاع اور خطے میں امریکی پالیسیوں کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں اور وسائل حاضر کر رکھے ہیں۔ اس وقت جو تعاون اماراتی حکمرانوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان جاری ہے وہ عام سطح کے دوستانہ تعلقات سے کہیں بڑھ کر ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل سے اس قدر شدید تعاون کی ایک وجہ وہ خوف ہے جو خطے کے عرب ممالک میں حکمران خاندانوں کی جانب سے ایکدوسرے کے خلاف بغاوت کے باعث موجود ہے۔ لہذا اماراتی حکمرانوں نے اپنی بقا کی قیمت امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعے چکائی ہے۔ آل سعود رژیم بھی ایسی ہی ملتی جلتی وجوہات کی بنا پر امریکی حکمرانوں کی مکمل تابعداری میں مصروف ہے۔

نائن الیون کے واقعہ میں ملوث افراد کی بڑی تعداد سعودی شہری تھے۔ امریکی حکمرانوں نے بھی اب تک نائن الیون کی رپورٹ شائع ہونے کی اجازت نہیں دی اور اس کے ذریعے سعودی حکمرانوں کو بلیک میل کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح سابق سعودی فرمانروا ملک عبداللہ نے سابق امریکی صدر جارج بش کو کچھ وعدے دے رکھے تھے جن کے باعث سعودی حکمران امریکی دائرے سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز کے برسراقتدار آنے اور ان کی جانب سے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولیعہد بنائے جانے کے بعد بعض ایسے ناگوار واقعات رونما ہوئے ہیں جو آل سعود خاندان کی رسوائی کا باعث بن گئے ہیں اور امریکہ انہیں ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے گریٹر مڈل ایسٹ نامی منصوبے کو عملی شکل دینے کی کوشش میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھرپور کردار ادا کیا تھا۔ ان دونوں عرب ممالک کا کردار مالی اخراجات، انٹیلی جنس اقدامات، میڈیا جنگ اور سفارتی سرگرمیوں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح 2006ء میں غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے دوران ان دونوں عرب ممالک نے بھرپور انداز میں اسرائیل کی حمایت کی۔

2011ء میں جب خطے میں تکفیری دہشت گروہ داعش معرض وجود میں آیا تو امریکہ اور اسرائیل کے شیطانی منصوبوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا تعاون اپنے عروج تک پہنچ گیا۔ ان دونوں عرب حکومتوں نے داعش اور النصرہ فرنٹ پر نوٹوں کی بارش کر دی اور مغربی ایشیا میں اسلامی ممالک کو مکمل طور پر نابود کرنے کی کسی کوشش سے دریغ نہ کیا۔ اس سارے منصوبے کا مقصد تکفیری دہشت گرد عناصر کو خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی بالادستی قائم کرنے کیلئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ اب جبکہ اسلامی دنیا کے اندر موجود منافق چہروں کی نقاب اترتی جا رہی ہے یہ حکمران حتی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدی کی ڈیل کے بارے میں نئی امید دلا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی اور اماراتی حکمرانوں نے امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دے کر خطے کے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے اور عنقریب انہیں اپنے اس جرم کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔

ای میل کریں