اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف نئی امریکی سازش
تحریر: روح اللہ صالحی
عراق اور لبنان میں ایک ہی وقت عدم استحکام اور سیاسی بحران پیدا ہونا اور اس کے بعد ایران میں ہنگامے محض اتفاق نہیں بلکہ اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت کم کرنے کی خاطر امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے طے شدہ منصوبے کا شاخسانہ ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی گذشتہ چند سالوں میں ایران کی مرکزیت میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں شدید ناکامیوں کا شکار ہوئے ہیں اور جب وہ مسلح دہشت گرد عناصر کے ذریعے خطے میں مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا شکار ہوئے تو انہوں نے متبادل راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھاری اخراجات کے باوجود شام میں شکست کے باعث امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ براہ راست ٹکراو کے ذریعے اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنے سے قاصر ہیں لہذا انہیں ایسے متبادل راستے اختیار کرنے چاہئیں جو کم اخراجات کے حامل ہوں۔ عدم استحکام پیدا کرنا، بدامنی پھیلانا اور ہنگامے شروع کروانا اس نئے منصوبے کا حصہ ہیں جو مغربی عبری عربی اتحاد نے اسلامی مزاحمتی اتحاد کے خلاف اختیار کیا ہے۔ گذشتہ دو ماہ سے عراق اور لبنان میں شروع ہونے والا سیاسی بحران، جس کے بارے میں ان ممالک کے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اس میں امریکہ اور سعودی عرب ملوث ہیں، درحقیقت اپنی ناکامیوں کے ازالے کی کوشش ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کی فوجی طاقت میں اضافہ اور عراق میں عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کی بڑھتی ہوئی طاقت نیز تہران - بغداد - دمشق - بیروت روٹ کا آپس میں متصل ہو جانا واشنگٹن اور تل ابیب کی نظر میں ایک بہت بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے اور وہ اس روٹ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لبنان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا بنیادی مقصد حزب اللہ لبنان کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ لبنان میں بدامنی کی سازش ایسے وقت انجام پائی ہے جب گذشتہ سال کے الیکشن میں حزب اللہ لبنان اور اس کی اتحادی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے سیاسی اور سماجی شعبوں میں حزب اللہ لبنان کا اثرورسوخ بڑھ گیا ہے۔ مغربی عبری عربی محاذ لبنان میں حزب اللہ لبنان کی پوزیشن مضبوط ہونے سے شدید ہراساں ہے اور اسے کمزور کرنے کیلئے کسی اقدام سے دریغ کرتے نظر نہیں آتے۔ کیونکہ امریکی اور اسرائیلی حکام حزب اللہ لبنان کو خطے میں ایران کا طاقتور بازو تصور کرتے ہیں۔
اگر کسی زمانے میں صرف حزب اللہ لبنان اسرائیل کے شرپسندانہ عزائم کے خلاف سینہ تانے کھڑی تھی تو آج اس کے ساتھ عراق میں حشد الشعبی بھی کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ عراق میں مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمی سیستانی کے فتوے پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف تشکیل پانے والی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی پانچ سال پہلے معرض وجود میں آئی۔ آج یہ عوامی رضاکار فورس خطے میں امریکہ اور اسرائیل کیلئے بڑا خطرہ تصور کی جا رہی ہے۔ امریکی حکام کا دعوی ہے کہ حشد الشعبی ایران کی حمایت یافتہ ہے لہذا وہ عراق میں حشد الشعبی کے اثرورسوخ کا بھرپور مقابلہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ امریکہ ایسے وقت حشد الشعبی کو ختم کرنے پر تلا ہوا ہے جب یہ فورس عراق کے اہم شہروں کو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے آزاد کروانے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کر چکی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت عراقی حکومت سرکاری سطح پر حشد الشعبی کو عراق کی مسلح افواج کا حصہ قرار دے چکی ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب حشد الشعبی کی شکل میں خطے میں دوسری حزب اللہ تشکیل پانے کے خوف میں مبتلا ہیں لہذا اسے ختم کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔
اگرچہ مغربی عبری عربی محاذ نے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف اپنی حالیہ سازش کا آغاز لبنان اور عراق سے کیا تھا لیکن ان کا اصل ہدف ایران ہے۔ وہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو اپنے مذموم عزائم اور مفادات کے حصول کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ 1979ء میں جب ایران میں امام خمینی رح کی قیادت میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا تو اس ملک سے امریکی اثرورسوخ مکمل طور پر رخصت ہو گیا۔ اس دن سے امریکہ ایران میں اپنا اثرورسوخ دوبارہ واپس لوٹانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے اور آئے دن نت نئی سازشیں کرتا رہتا ہے۔ امریکہ اب تک ایران میں برسراقتدار اسلامی جمہوریہ نظام کے خاتمے کیلئے کئی منصوبے آزما چکا ہے لیکن ہر بار اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ماضی کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک پر کاری ضرب لگانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس بلاک نے کامیابی سے ان کی سازشوں کا مقابلہ کیا ہے اور اس وقت ایران اور اس کے اتحادی انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہیں اور ان کی طاقت عروج پر ہے۔