ہمارا نبی(ص)

میرا نہیں، ہمارا نبی(ص)

ربیع الاول کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے سرکارِ مصطفیٰ (ص) کی آمد کی فضلیت سے اِس مہینے کی حرمت بھی بڑھ گئی

میرا نہیں، ہمارا نبی(ص)

 

تحریر: تصور حسین شہزاد

ربیع الاول کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ سرکارِ مصطفیٰ (ص) کی آمد کی فضلیت سے اِس مہینے کی حرمت بھی بڑھ گئی۔ اس کے علاوہ اس مہینے میں وحدت، اخوت اور بھائی چارے کے فروغ کا بھی بہترین موقع میسر ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں فرقہ واریت برطانیہ کی دین ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی یہاں مسلمانوں میں فرقہ واریت کا بیج بو دیا گیا۔ پہلے بریلویوں اور اہلحدیثوں کو لڑایا گیا بعد میں شیعہ اور دیوبندیوں کیلئے میدان کھولا گیا اور یہ ’’جنگ‘‘ 90ء کی دہائی تک جاری رہی البتہ 2000ء کا سورج طلوع ہوا تو فرقہ واریت کا اندھیرا چھٹنے لگا اور اب نوبت با ایں جا رسید کہ ملک میں قدرے امن ہے۔ دہشتگردی کا عفریت تھم چکا ہے۔ فرقہ بندی بھی اپنی موت مرتی دکھائی دے رہی ہے اور علمائے کرام باہمی وحدت کے فروغ کیلئے سرگرمِ عمل ہیں۔ ربیع الاول کو رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اہلسنت 12 ربیع الاول کو اور اہل تشیع 17 ربیع الاول کو میلاد مسعود مناتے ہیں، لیکن اس میں یہ کریڈٹ امام خمینیؒ کا بنتا ہے کہ انہوں نے اس پورے ہفتے کو (12 سے 17 ربیع الاول) ہفتہ وحدت کے طور پر منانے کا حکم دیا۔ تب سے آج تک پوری دنیا میں شیعہ سنی مل کر اس ’’ہفتہ وحدت‘‘ کو مناتے ہیں۔

یقیناً یہ پُرآشوب دور اُمت مسلمہ میں وحدت کا تقاضا کرتا ہے۔ دشمن کی تو اب بھی کوشش ہے کہ اب بھی اُسی پرانی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر انہیں متحد ہونے ہی نہ دے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کا کردار دیکھیں تو بالکل یہی پالیسی دکھائی دے گی۔ امریکہ اور اسرائیل واضح طور پر سنی مسلمانوں کو شیعہ مسلمان ملک ایران سے ڈرانے کی بات کرتے ہیں جبکہ ایران نے سنییوں کیلئے خطرہ بننے کے الزام کی ہمیشہ سے تردید کی ہے۔ سعودی عرب میں کوئی بھی گڑبڑ ہو جائے، امریکہ و اسرائیل فوری طور پر اس کا ’’کُھرا‘‘ تہران تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس طرز سے وہ نہ صرف مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دُور رکھتے ہیں بلکہ اپنا اسلحہ بھی مہنگے داموں فروخت کرکے سستے داموں عربوں کا تیل بھی بٹور لیتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو ہم نے ماضی میں فرقہ واریت کا عذاب بڑی سختی سے جھیلا ہے۔ اس عتاب میں ہم نے اپنے ملک کی بہت زیادہ قیمتی جانیں ضائع کی ہیں۔ پاکستان اس عرصے میں بہترین ڈاکٹرز، انجینئرز، ماہرین تعلیم، بیوروکریٹس، سیاستدانوں، وکلاء اور جید علماء سے محروم ہوا ہے۔ یہ ساری قیمتیں جانیں فرقہ واریت کا جن ڈکار گیا۔ مگر کہتے ہیں کہ

ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو تھم جاتا ہے

خون پھر خون ہے، بہتا ہے توجم جاتا ہے

ظلم کی وہ تاریک رات اب ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بے گناہ خون کی ہی تاثیر ہے کہ آج تمام مکاتب فکر کے علماء وحدت کی بات کر رہے ہیں۔ آج یہ آوازے سنائی دیتے ہیں کہ مشترکات پر جمع ہو جاو۔ آج ہمارے تمام مکاتب فکر کے درمیان حضور نبی رحمت (ص) کی ذات با برکات مشترک ہے۔ اُن (ص) کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے۔ اسی مہینے کی برکت کے طفیل کیا ہی اچھا ہو کہ تمام مکاتب فکر اللہ کے حبیب (ص) کی ولادت کا جشن مل کر منائیں۔ لاہور میں یہ روایت گزشتہ دو تین برسوں سے شروع کی گئی ہے اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے علامہ سید جواد نقوی 12 ربیع الاول کو اہلسنت کے ہمراہ مشترکہ ریلی نکالتے ہیں اور یہ لاہور کی تاریخ کی مثالی ریلی ہوتی ہے۔ اسی طرز کی ریلیاں اگر دیگر شہروں میں بھی شروع کی جائیں اور اہل تشیع اہلسنت کی ریلیوں اور اہلسنت اہل تشیع کی ریلیوں میں شریک ہوں تو وحدت کے فروغ کا اس سے بڑھ کر کوئی اچھا پلیٹ فارم نہیں۔

مجلس وحدت مسلمین نے بھی ’’وحدت کانفرنس‘‘ کروانے کا اعلان کیا ہے جو کہ لاہور کے ایوان اقبال میں ہوگی، جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور زعمائے کرام کو دعوت دی گئی ہے۔ یہ احسن اقدامات ہیں، جو کہ وحدت اُمت کیلئے حوصلہ افزاء ہیں۔ اسی طرح اہلسنت کی جانب سے بھی ’’تنظیم اتحاد امت پاکستان‘‘ کے سربراہ مفتی ضیاءالحق نقشبندی نے بھی وحدت کیلئے خصوصی پروگرام تشکیل دیئے ہیں اور مسجد الحسن میں اس حوالے سے رحمت اللعالمین کانفرنس کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کانفرنس میں بھی شیعہ سنی تمام علماء و زعماء شریک ہوں گے۔ اسی طرح اور بھی تنظیموں کی جانب سے وحدت کے فروغ کیلئے پروگرامز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

اس طرح کی کاوشیں مختلف مذہبی جماعتوں اور رہنماوں کی جانب سے ہو رہی ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر بھی اس طرح کے پروگرامز کروائے جائیں جس میں تمام شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی شریک ہوں اور رحمت عالم کے ذکرِ پاک سے اپنے دلوں کو منور کریں۔ یقیناً حبیب خدا (ص) کے بابرکت ذکر سے دلوں کے میل دُھل جاتے ہیں،کدورتیں دُور ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے نبی رحمت کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جیو اور جینے دو کے اصول سے معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانا ہوگا۔ اس ماہ ربیع الاول میں ہمارے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ ہم امت کے اتحاد کیلئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں ’’میرا، تیرا‘‘ سے نکل ہر ’’ہمارا‘‘ پر متحد ہونا ہوگا کیونکہ محمد مصطفیٰ (ص) صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ پوری کائناب کیلئے رحمت بن کر آئے ہیں۔

ای میل کریں