کیپٹلزم کے خلاف اعتراض
کیپٹلزم کے خلاف امام خمینی (رح) نے کھل کر اعتراض کیا اور علی الاعلان اس کی مخالفت کی۔ ایران میں امریکہ کے مفاد میں منظور ہونے والے کیپٹلزم قانون کی مخالفت چونکہ شاہ نے امریکہ کے مفاد میں اس قانون کے ایران میں نفاذ کی منظوری دے دی تھی۔ اس پر امام خمینی (رح) نے اس قانون کی حقیقت کا پردہ فاش کردیا اور فرمایا کہ اس قانون کی منظوری سے ایران کی عظمت اور شان و شوکت ختم ہوگئی۔ایران کی خود مختاری ختم ہوگی۔ ہماری عزت پامال ہوگئی۔ کیا ہم پر استعمار کا قبضہ ہے، کیا ایران پر امریکہ کا قبضہ ہے؟ جیسے ہی امام (رح) نے اس قانون کی مخالفت کی اس کے بعد 4/ نومبر حکومت کے درندوں نے امام کے گھر پر وحشیانہ حملہ کیا اور آپ کو گرفتار کرکے ترکی بھیج دیا۔
کیپٹلزم کو شرمناک اور ظالمانہ معاہدہ کہا جاسکتا ہے کہ سامراجی طاقتیں اپنے ما تحت معاشروں میں اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ کیپٹلزم در حقیقت ایک ملک کی آزادی اور حاکمیت کو نقض کرتا ہے اور اس کی قومی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ ایران میں بھی سن 1964ء میں ایران کی توہین اور تحقیر اور سامراجوں کے اقتدار بالخصوص امریکہ کے اقتدار کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس قانون کے منظور کرنے سے انسانیت اور ایک ملک کی آزادی اور خودمختاری کو بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے جمہوری اسلامی ایران کے بانی اور انسانیت کا درد رکھنے والے عظیم انسان، امام خمینی (رح) نے اپنی جان اور عزت و آبرو کی پرواہ کئے بغیر اس قانون اور شاہ کے ظالمانہ رویہ کی مخالفت کی۔ اس کے لئے آپ کو ہر طرح کی اذیت اور مظالم کا بھی سامنا کرنا پڑھا۔ اس موضوع کی وجہ سے امام (رح) امریکہ کی مکاری اور اس کی سازشوں کی جانب متوجہ ہو اور اس ملک کے پوشیدہ اور ظاہری دونوں طرح کی خیانتوں کا پردہ چاک کیا۔
پہلوی حکومت جانتی تھی کہ اس شرمناک قانون کی منظوری کا عکس العمل کس درجہ خطرناک ہوگا۔ اس نے اس کے لئے اخبار کو پوشیدہ کرنے اور عوام کے درمیان سینسر کرکے پیش کرنے کی تاکید کی۔ اس کے باوجود اس واقعہ کو بھی کچھ ہی دن گذرے تھے کہ شوارئے ملی کہ داخلی جریدہ نے مذاکرات کے مکمل متن کو امام خمینی (رح) کے حوالہ کردیا۔ امام خمینی (رح) نے معلومات حاصل کرنے اور اس موضوع کے بارے میں یقین حاصل کرنے کے بعد اس خیانت کا پردہ فاش کرنے کی غرض سے فیصلہ کیا کہ ایک بیانیہ کے ضمن میں یہ بات عوام کے قانون تک پہونچادیں۔ آپ نے مرکز اور شہر و دیہات اور قبصوں کے علماء اور روحانیوں کو با خبر کرنے کے لئے اپنے خط کے ہمراہ ہر جگہ قاصد روانہ کئے تا کہ ملک کے ہر گوشہ و کنار میں یہ خبر پھیل جائے اور خود بھی قم کے عظیم اور مایہ ناز علماء سے گفتگو کے لئے جلسہ کرنے لگے۔
تدریجا ایران کے بہت سارے لوگ قم آئے تا کہ اس تاریخی تقریر کو نزدیک سے سن سکیں۔ شاہی حکومت حضرت امام کے اس پروگرام سے واقف تھی۔ لہذا اس نے اسے روکنے کے لئے قم اپنا نمائندہ بھیجا لیکن یہ شخص امام سے ملاقات نہ کرسکا لیکن آپ کے بیٹے سید مصطفی خمینی (رح) سے ملاقات کرکے یہ خط امام (رح) تک پہنچوایا۔ حکومت نے اس پروگرام کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی اور ہر طرح کے ہتھکنڈوں کا استعمال کیا لیکن امام خمینی (رح) نے بہت ہی بے باکی اور شجاعت کے ساتھ اس ظالمانہ قانون کی منظوری کی مخالفت کی اور اسلام اور انسانیت دشمن عناصر کو ان کے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔
امام خمینی (رح) نے صرف تقریر ہی نہیں کی بلکہ اس کی مخالفت کے لئے واضح الفاظ میں اعلانیہ بھی صادر کیا۔ جس میں "نفی سبیل" اور "من یعجل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا" جیسے قرآنی آیات سے شروع کیا تھا۔ اس پر ساواک نے ایک اعلانیہ میں امام خمینی (رح) کے ملک بدر کرنے کا اعلان کیا کہ شواہد اور ثبوتوں کی روشنی میں امام خمینی (رح) کو جلاوطن کیا جاتا ہے۔