دفاع مقدس
جمہوری اسلامی ایران کے کلینڈر میں ایران اور عراق کے درمیان جنگ کے آغاز کے پہلے ہفتہ کو کہا جاتا ہے۔
مورخه 31/ شہریور 1359 ش مطابق 22/ ستمبر 1980 ء کو عراق کی بعثی حکومت پہلے سے منصوبہ بند پروگرام اور طے شدہ فیصلہ کے مطابق جمہوری اسلامی کے نظام کو گرانے کے لئے پورے طور سے اسلامی ایران کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا۔ عراق کے صدر صدام حسین نے عراق کے ٹی وی پر آکر الجزائر میں ہوئے معاہدہ کے کاغذ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور بعثی حکومت نے ایران کی سرزمین پر اپنے تجاوز کے آغاز کا اعلان کردیا۔ یہ ایران کے خلاف زبردستی کی جنگ تھی اور اتنی غیر منصفانہ تھی کہ عالم استکبار بالخصوص امریکہ کا زبردست دباؤ تھا اور ملک اور مشرق و مغرب سے وابستہ کے اندر کی پارٹیاں پروپیگنڈہ اور فوجی مڈ بھیڑ کے ذریعہ حکومت کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی تھیں اور ملک کی افواج بھی انقلاب کے قہری نتائج کی وجہ سے ابھی منظم اور مستحکم نہیں ہوئی تھیں۔
امریکہ نے جمہوری اسلامی کو مصلحت کرنے اور خفیہ و علی الاعلان پر میدان میں خواہ سیاسی ہو یا نظامی یا اقتصادی ان پارٹیوں اور عراق کی بعثی حکومت کی حمایت کی۔ دوسری طرف دنیا کی بڑی طاقتیں یعنی روس جو عراق کی حمایتی جانی جاتی تھی، نے بھی اسلامی نظام کے نعرہ نہ شرقی نہ غربی کو اپنا نصب العین قرار دیا تھا اور افغانستان پر روس کے قبضہ کی مذمت کی وجہ سے روس نے بھی اپنی عراق کی بعثی حکومت کے گھناونے کارنامہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
خلاصہ دنیا کی بڑی طاقتیں اسلامی نظام کو سرنگوں کرنے میں سروتن کی بازی لگائے ہوئے تھیں لیکن ایران کے جہادیوں اور دین اسلام کے شیدائیوں نے ایمان و اعتقاد کے اسلحوں اور شہادت کو گلے لگا کر عظیم کامیابی حاصل کی اور اس کامیابی میں شہادت طلبی کا جذبہ کارفرما تھا۔ اسلام اور ایمان کے متوالوں نے امام خمینی (رح) کی قیادت میں دنیا کی بڑی طاقتوں کی سمجھادیا کہ باطل اپنے مقصد میں ناکام رہے گا۔ باطل کو کبھی کامیابی نہیں ملی ہے اور دنیا کی تمام طاقتوں کے مقابلے میں تنہا لڑ کر یہ بتادیا کہ حق پر رہوگے اور سچائی کی راہ پر گامزن رہوگے تو دنیا میں فاتح اور کامیاب بنوگے اور دنیا کے ظالم و جابر حکمراں سب کچھ رکھنے کے باوجود بھی منہ کی کھائیں گے اور الحمدللہ ایسا ہی ہوگا۔