سن 50 ش کی دہائی کے اواسط میں عراق میں مقیم ایرانیوں کو عراقی حکومت نے عراق خصوصا عتبات عالیات سے نکالنے کا اقدام کیا۔ عراق کی بعثی حکومت کے اس بزدلانہ کام کی سب سے بڑی وجہ شمال عراق کے کردوں کی ایران کا حمایت کرنا تھی؛ کیونکہ عراقی حکومت نے انھیں کچلنے اور اپنا مطیع بنانے کے لئے کیا تھا لیکن امریکہ کے حکم سے ایرانی حکومت نے عراقی کردوں کی حمایت کی تھی تا کہ عراق کے ذریعہ روس کا اثر رسوخ نہ ہونے پائے اور بغداد کے جدید حکام خود انہی میں مشغول کردیں۔ عراق میں حسن البکر کے آئے ہوئے 3/ یا 4/ سال ہوئے تھے اور صدام اس کا معاون تھا۔ یہ دونوں عراق کے سابق حکام کہ وہ بھی بعث پارٹی ہی کے تھے سے زیادہ تندرو اور شدت پسند تھے اور ایران کو عراق سے اس سے پہلے سے مشکل تھی لیکن ان لوگوں کی حاکمیت سے اس کی مشکل اور بڑھ گئی اور عراق کی حکومت نے روس کا چاند بننے اور اپنی طاقت کا اظہار کرنے کے لئے ایران سے رابطہ ختم کرلیا اور جنوب و مغرب کے سارے باڈر کو بند کردیا۔
اس طرح سے کہ غیر قانونی طور سے آمد و رفت کا سلسلہ پورے طور سے رک گیا۔ ایرانی حکومت نے جہاں تک ہوا عراقی حکومت کے مخالف کردوں کی خفیہ طور سے مدد کی۔ میں نے خود بھی دیکھا ہے کیونکہ اس وقت شہر بانہ اور سقز کے اطراف میں تھا۔ دیکھا کہ کوردوں کی امداد کے لئے کافی افواج بھیجی جارہی ہے۔ چونکہ عراقی حکومت نے ایک داخلی جنگ شروع کردی تھی اور ایرانیوں کی کوردوں کی حمایت سے بھی باخبر تھی؛ کیونکہ عراق میں مقیم ایرانی (بالخصوص مذہبی شہروں میں مقیم) جن کی تعداد زیادہ تھی اور ان شہروں کا اقتہاد انہی ایرانیوں کے ہاتھ میں تھا لہذا ان کے حکومت پر دباؤ کو کم کرنے اور اس لئے بھی کہ کبھی بعثی حکومت کے خلاف اقتصادی میدان میں کوئی کام نہ کریں لہذا عراق سے ایرانیوں کو خواہ علماء ہوں یا عوام نکالنے کے لئےقدام اٹھادیا اور نکالنے کا طریقہ بھی یہ تھا کہ عراقی حکومت نے اپنی افواج کو مامور کردیا تھا کہ سڑکوں پر آجائیں اور جہاں پر بھی ایرانیوں کو دیکھیں وہیں سے پکڑ کر ان کے گھروالوں کو خبر دیئے بغیر نکال باہر کریں۔ اس راہ میں صرف کچھ بڑے علماء کو کچھ افراد کی ضمانت پر اجازت دی گئی کہ کم مدت میں اپنا سارا ساز و سامان جمع کرکے اپنے خانوادہ کے ساتھ باہر چلے جائیں۔