امام خمینی (رح) اور آیت اللہ حکیم (رح) کے درمیان گفتگو
امام خمینی (رح) کے نجف جلاوطن ہونے کے چند دنوں بعد امام خمینی (رح) 27/ مہر ماہ سن 1344 ش کی رات کو نجف اشرف میں مراجع تقلید سے ملاقات کرنے لگے۔ آپ کی آیت اللہ حکیم سے گفتگو امام کی حوزہ نجف میں اپنی رسالت انجام دینے سے متعلق آپ کے پختہ ارادہ کی حکایت ہے، اسی طرح اس حوزہ پر حاکم فضا اور تفکر کی عکاسی کررہی ہے:
امام خمینی: آب و ہوا بدلنے کے لئے ایران چلے جائیں تو بہتر ہوگا تا کہ وہاں کے حالات کا نزدیک سے مشاہدہ کریں اور جائزہ لیں کہ اس امت مسلمہ پر کیا گذر رہی ہے۔ مرحوم آیت اللہ بروجردی کے زمانہ میں جابر حکومت کے خلاف اقدام نہ کرنے کو صحیح بتایا اور میں کہہ رہا تھا کہ ان تک خبر نہیں دی جاری تھی۔ آپ کے بارے میں بھی اسی طرح میرا خیال ہے کہ ایران کے دردناک حوادث کی آپ کو خبر نہیں دی جاتی ورنہ آپ بھی خاموش نہیں بیٹھتے۔
تهران میں پہلوی 2500/ سالہ سلطنت کا جشن منارہے تھے اور اس جشن پر خرچ کرنے کے لئے اس فقیر عوام سے چار لاکھ ڈالر لیا، 800/ لڑکیوں اور 800/ لڑکوں کو دعا کے عنوان سے ایک دوسرے کا جانی دشمن بنادیا۔دعا کے نام سے انہوں نے کیا کیا ہے اس کے بیان کرنے میں شرم آتی ہے۔
آیت اللہ حکیم: آپ تو یہاں تشریف رکھتے ہیں، میرے ایران جانے میں کوئی فائدہ نہیں ہے اور اگر گئے بھی تو اس وقت کیا کیا جاسکتا ہے؟ اور اس کا کیا فائدہ ہوگا؟
امام: یقینا اثر رکھتا ہے ہم نے اسی قیام سے حکومت کے خطرناک فیصلوں کو روک دیا ہے۔
آقا حکیم: اگر عقلائی احتمال ہو اور عاقلانہ اقدام کیا جائے تو بہتر ہے۔
امام: یقینا اس کا اثر ہے۔ چنانچہ اگر اثر بھی اور ہمارا اقدام عاقلانہ ہے۔ غیر عاقلانہ اقدام کی تو بات ہی نہیں ہے۔ اس سے مراد قوم اور علماء کا اقدام ہے۔ 15/ خرداد کو عوام نے صادقانہ جوانمردی کے ساتھ اقدام کیا ہے۔
آقا حکیم: اگر ہم قیام کریں اور لوگوں کی ناک سے خون بہے اور شور مچے تو لوگ مجھے برا بھلا کہیں گے اور شور مچائیں گے۔
امام: ہم نے قیام کیا اور لوگوں نے احترام اور دست بوسی کی ہے اور جس نے کوتاہی کی اس کی مذمت ہوئی اور لوگ اس سے دور ہوگئے ہیں۔ ترکی جلاوطن ہوئے، ترکی کا ایک دیہات کہ اس کا نام یاد نہیں آرہا ہے ، میں گئے تو اس دیہات کے رہنے والوں نے کہا جب آتاتورک دین مخالف کام کرنے لگا تو ترکی کے علماء اکھٹا ہوئے اور سب مل کر آتاتورک کے فیصلوں کے خلاف کام کرنے لگے۔ آتاتورک نے اس کاموں کا محاصرہ کرادیا اور ترکی کے 40/ علماء کو قتل کرادیا۔ میں شرمندہ ہوا اور اپنے آپ میں کہا کہ وہ سنی ہیں کہ جب اسلام کو خطرہ میں دیکھتے ہیں تو 40/ افراد کو شہید کرادیتے ہیں لیکن علمائے شیعہ اس عظیم خطرہ میں کہ ہماری دیانت کو لاحق ہوا ہے لیکن ہمارے کان پر جون تک نہ رینگی (نہ ہمارے نہ آپ کے اور نہ کسی اور کے) حقیقت میں شرمناک ہے۔
آقا حکیم: کیا کرنا چاہیئے، احتمال اثر دینا چاہیئے، قتل کرانے کا کیا فائدہ ہے؟
امام: دین مخالف سرگرمیاں دو طرح کی ہیں: ایک رضا خان کی طرح کہ بے دینی کررہا تھا اور منکر ہوجاتا تھا لیکن موجودہ شاہ قرآن اور مذہب کے خلاف ہر کام کرتا ہے اور اسے دین بتاتا ہے۔ "قرآن کا نظریہ اسی طرح ہے میں قرآن سے گفتگو کررہا ہوں "کہ یہ عظیم اور بڑی بدعت جو دیانت کی بنیاد کو ڈھارہی ہے، قابل برداشت نہیں ہے۔ جاں نثاری کرنی چاہیئے۔ تاریخ میں درج ہونے دیجئے کہ جب دین کو نشانہ بنایا گیا تو کچھ شیعہ علماء نے قیام کیا اور کچھ لوگ مارے گئے۔
آقا حکیم: تاریخ کا کیا فائدہ اثر ہونا چاہیئے؟
امام: کیسے اثر نہیں رکھتا؟ کیا امام حسین بن علی (ع) کے قیام نے تاریخ میں اثر نہیں چھوڑا؟ ہم لوگ آپ کے قیام سے کتنا بڑا فاندہ اٹھارہے ہیں؟
آقا حکیم: امام حسن (ع) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ نے قیام تو نہیں کیا۔
امام: اگر امام حسن (ع) بھی آپ کے برابر مرید رکھتے تو قیام کردیتے۔ پہلی فرصت میں قیام کیا اور جب دیکھا کہ آپ کے چاہنے والے بک گئے ہیں لہذا فتح نہ کرسکے لیکن آپ ہر ملک میں مقلد اور مرید رکھتے ہیں۔
آقا حکیم: مجھے نہیں لگتا کہ میرا کوئی ہوگا کہ اگر کوئی قدم اٹھائیں تو پیروی کریں گے۔
امام: آپ قیام کریں میں آپ کی سب سے پہلے پیروی کروں گا۔
مرحوم حکیم مسکرا کر خاموش ہوگئے۔
اس زمانہ میں یورپ میں امام اور علماء کے بیانات کو نشر کرنے میں ایک مشکل حوزہ علمیہ نجف پر طاری سکوت تھی اور ایران میں علماء اور مراجع کا سکوت تھا۔ نجف کے حوزہ میں قدامت پسندی اس درجہ تھی کہ امام اپنے نجف میں قیام کے دور کو اپنی زندگی کا تلخ ترین دور کہتے ہیں۔ میں نے اس وقت نجف کا جو سفر کیا اور شہید سید محمد صدر، امام کے اصحاب اور حاج مصطفی سے طولانی گفتگو اور ملاقاتوں کے دوران جو اندازہ ہوا تو یورپ میں اسلامی انجمنوں کے اراکین کو نجف روانہ کرنے پر مانع ہوا۔ خوف تھا کہ کہیں لوگ دین اور علماء سے بیزار نہ ہوجائیں۔