ایران میں اتحاد و یکجہتی کا بانی

ایران میں اتحاد و یکجہتی کا بانی

دولت مند اور محروم طبقوں کے درمیان کوئی رابطہ موجود نہ تھا۔ خوشحال اور آرام طلب طبقات ان محروم لوگوں کے ڈر کی وجہ سے کہ جو ملک کی اکثریت ہیں ، اپنی دولت کی حفاظت کیلئے غیروں کی جھولی میں جا گرتے تھے

ایران میں اتحاد و یکجہتی کا بانی

’’ہم اسلام، اسلامی ممالک اور اسلامی ملکوں  کی آزادی اور استقلال کے دفاع کیلئے ہر حال میں  آمادہ ہیں ۔ ہمارا پروگرام اسلامی پروگرام ہے۔ ہمارا ہدف وحدت مسلمین، اتحاد ممالک اسلامی، مسلمانوں  کے تمام فرقوں  کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا قیام اور دنیا کے گوشے گوشے میں  موجود اسلامی حکومتوں  کے ساتھ یکجہتی ہے۔ ہم اپنا دست تعاون بڑھاتے ہیں ۔ پوری دنیا میں  صیہونزم کے مقابل، اسرائیل کے مقابل، استعماری حکومتوں  کے مقابل اور ان لوگوں  کے مقابل کہ جو اس غریب قوم کے ذخائر کو مفت اڑا لے جاتے ہیں  اور یہ بے چاری قوم فقر وتنگدستی اور غربت کی بھٹی میں  جلتی رہتی ہے۔ بھوک اور غربت کے مارے ان پژمردہ چہروں  کی موجودگی میں  حکومتیں  ہمیشہ اقتصادی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں ۔ ان تلخ حقیقتوں  نے ہمارا پیمانہ صبر لبریز کردیا ہے اور یہ سب کچھ علمائے اسلام کیلئے باعث رنج وتکلیف ہے‘‘۔(صحیفہ امام، ج ۱۷، ص ۲۰۳)

واقعاً امام (رح) نے اپنا قول سچ کر دکھایا اور اس مقدس ہدف سے لمحہ بھر بھی غفلت نہ برتی۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رضوان اﷲ تعالیٰ علیہ، ایسے حالات میں  قوموں  کے اتفاق واتحاد کے علمبردار بنے کہ جب انسان وبشریت کے دشمن ملتوں  اور مختلف گروہوں  کے درمیان ڈالے ہوئے رخنوں  کو دن بدن عمیق تر ووسیع تر کئے جا رہے تھے۔ استعماری سیاستوں  کی وجہ سے بھائی چارے اور تفاہم کے طرف واپسی کے تمام راستے روز بروز مسدودتر ہو رہے تھے۔ مغرب کی اقتصادی سیاستوں  نے طبقاتی فاصلوں  کو اس قدر بڑھا دیا تھا کہ نسل پرستی کی تفریق، گویا ناگزیر ہوگئی تھی۔

 دولت مند اور محروم طبقوں  کے درمیان کوئی رابطہ موجود نہ تھا۔ خوشحال اور آرام طلب طبقات ان محروم لوگوں  کے ڈر کی وجہ سے  کہ جو ملک کی اکثریت ہیں ، اپنی دولت کی حفاظت کیلئے غیروں  کی جھولی میں  جا گرتے تھے۔ اسی حربے نے تیسری دنیا کے ملکوں  کی غارت گری کو وسعت بخشی۔ ثقافتی افتراق علما اور یونیورسٹیوں  کے درمیان دوری کا باعث تھا۔ حکومت اور ملت کے درمیان ہم آہنگی موجود نہ تھی۔ فن اور فنکار معاشرے سے بیگانہ تھے۔ اسلامی حکومتیں  باہمی جھگڑوں  کے وقت اپنی حفاظت کیلئے غیروں  کے دامن میں  پناہ لیتی تھیں ۔ دین وسیاست ایک دوسرے سے جدا تھے۔ شیعہ وسنی، عرب وعجم، ترک وفارس باہم دست وگریبان تھے۔ اس تمام اختلاف وانتشار کی وجہ سے امت مسلمہ اور تیسری دنیا کے روحانی ومعنوی سرمائے کو نقصان پہنچا۔ ان کے مادی وسائل وذخائر لوٹ لئے گئے اور بزرگ مصلحین کی تمام تر محنتوں  پر پانی پھر گیا۔

ای میل کریں