آل سعود کے جرائم
رپورٹ: ایس اے زیدی
امت مسلمہ کی تاریخ میں جہاں خمینی بت شکن (رہ) جیسے پاکیزہ، مجاہد، باکردار رہبر پیدا ہوئے، وہیں بدقسمتی سے ظالم و جابر نام نہاد حکمرانوں نے بھی اپنا تاریک دور گزارا۔ انہی میں ایک نام سعود کا بھی ہے، جس کی آل نہ صرف آج تک امت مسلمہ کیلئے باعث شرمندگی ہے، بلکہ اس خاندان نے اپنی بادشاہت کے ہر دور میں استعمار کا آلہ کار بن کر امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ آج نوبت اس حد تک آچکی ہے کہ اگر امریکہ برادر اسلامی ملک ایران پر حملہ آور ہونے کی بات کرتا ہے تو کافر کہلائی جانے والی مملکتیں تو اس رویہ کی مذمت کرتی ہیں، تاہم مذمت تو بعید بلکہ خاموش رہنے کے بجائے الٹا سعودی حکومت امریکہ کو اسلامی ملک پر بلاتاخیر حملے کے مشورے دیتی نظر آتی ہے۔ سعودی حکومت کے اس رویہ پر کئی مسلم ممالک نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور خاص طور پر آل سعود کی مختلف مسلم ممالک میں موجود لابی کو اس صورتحال میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے ایران کیخلاف جارحانہ رویہ میں تبدیلی اور دھمکیوں کے جواب میں تہران کے تگڑے موقف نے آل سعود کی امیدوں پر یکسر پانی پھر دیا۔
سعودی حکومت نے ہی ایران کو او آئی سی سے نکلوانے اور اسے تنہاء کرنے کی ہر کوشش کا نہ صرف بھرپور ساتھ دیا، بلکہ لیڈنگ رول ادا کیا۔ آل سعود کی جانب سے مسلم امہ کے دفاع کے نام پر تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کا اصل مقصد بھی یمن جنگ اور ایران سمیت اس کے اتحادی ممالک کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس فوجی اتحاد نے آج تک مسلم ممالک میں جاری دہشتگردی و بیرونی جارحیت سمیت دیگر مسائل پر عملی اقدام اٹھانا تو درکنا زبانی بیان تک نہ جاری کیا۔ قبلہ اول، جو کہ امت مسلمہ کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے، پر سعودی حکومت کا کردار شرمناک حد تک گرا ہوا نظر آتا ہے۔ سعودی حکومت نے اپنے زیر اثر بعض عرب ممالک کی مدد سے ہمیشہ اسرائیل کو درپردہ معاونت فراہم کی۔ ڈیل آف سنچری ہو یا دیگر صہیونی و امریکی سازشیں، سعودی حکومت ہی ہمیشہ استعماری قوتوں کی معاون و مددگار نظر آئی۔ اگر یوں کہا جائے کہ سعودی عرب نے غلاف کعبہ کا لبادہ اوڑھ کر ہمیشہ مسلمانوں کو عقیدت کے نام پر دھوکہ دیا تو غلط نہ ہوگا۔
آل سعود کے مختلف شہزادوں کی صہیونی حکام سے ملاقاتیں اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کے وجود کو امت مسلمہ کی جانب سے تسلیم کروانے کی کوششیں عالمی ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں بن چکی ہیں۔ علاوہ ازیں آل سعود بادشاہت نے روز اول سے اپنا سخت گیر مذہبی عقیدہ دنیا کے مختلف مسلم ممالک پر مسلط کرنے اور شدت پسندی کو فروغ دینے میں بھی واضح کردار ادا کیا۔ مسلح لشکر، دہشتگرد تنظیموں کی تشکیل اور انہیں فنڈنگ و تربیت فراہم کرنے جیسے مکروہ جرائم میں بھی سعودی حکومت ملوث ہے۔ القاعدہ، داعش جیسی عالمی دہشتگرد تنظیموں میں سعودی دہشتگردوں کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جبکہ پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک میں سعودی حکومت مدارس کو مالی طور پر معاونت فراہمی کی آڑ میں شدت پسندانہ اور فرقہ وارانہ نظریات کی ترویج میں بھی پیش پیش رہی ہے اور پھر یہی نظریات مختلف مواقع پر سعودی حکومت اپنے مفادات کیلئے کیش کرتی رہی ہے۔
دینی مراکز کی سپورٹ کی آڑ میں سعودی حکومت نے مختلف ممالک کے نہ صرف اندرونی معاملات میں مداخلت کی، بلکہ امت مسلمہ کو تقسیم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ یمن جنگ کی بات کی جائے تو آل سعود اپنے اتحادی ممالک کی مدد سے اب تک ہزاروں مسلمانوں، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنا کر شہید کرچکا ہے۔ سعودی حکمران امت مسلمہ پر ڈھائے جانے والے مظالم کیساتھ ساتھ کردار کے حوالے سے بھی ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں، آل سعود بادشاہوں اور شہزادوں کی عیاشیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حجاز جیسی مقدس سرزمین پر شراب و شباب کی محفلوں سمیت ہر ناجائز و غیر شرعی امور میں آل سعود خاندان ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ اسلامی حکومت کی آڑ میں پاک سرزمین پر نائٹ کلبز، جوا خانے اور فحش سینما گھر اب سرعام قائم کئے جا رہے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام کے ان ٹھیکیداروں نے شرعیت محمدی (ص) کی تمام حدود کو کراس کر لیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
آل سعود خاندان کے جرائم کی فہرست اس سے کہیں زیادہ طویل ہے، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ امت مسلمہ بھی بیدار ہو اور اچھے برے کی تمیز کرے، مکہ و مدینہ کی عقیدتی ڈھال لینے والے ان ظالم و بدکردار سعودی حکمرانوں کا کوئی فعل اسلامی نہیں، دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو آج یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا سعودی حکومت نے آج تک امت مسلمہ کے مفاد میں کوئی قدم اٹھایا۔؟ کیا اس خاندان نے کبھی حقیقی اسلامی حکومت کی طرف بڑھنے کا سوچا بھی۔؟ کیا سعودی عرب نے کبھی امریکہ و اسرائیل کی امت مسلمہ کیخلاف سازشوں پر لب کشائی تک کی۔؟ کیا اس بادشاہت نے کبھی عالم اسلام کو جوڑنے کی بات کی۔؟ اگر اب بھی مسلمانوں نے دشمن و دوست شناسی نہ کی تو عالم اسلام مزید تباہی و بربادی کا شکار ہوسکتا ہے، مسلکی اور تعصب کی عینک اتار کر امت مسلمہ میں موجود مخلص، درد امت رکھنے والے اور بابصیرت و باکردار حکمرانوں کو مضبوط کرنے اور ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آل سعود جیسے حکمرانوں سے امت مسلمہ کی جان چھڑوائی جاسکے۔