بیرونی طاغوتوں کے سامنے امام خمینی(رح) نے بہترین استقامت کا مظاہرہ کیا
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ استقامت ہی منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں اپنی عزت و شرف کا تحفظ کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور استقامت کی وجہ سے دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکہ زوال کا شکار ہے اور ٹرمپ جیسے شخص کا امریکہ میں صدر بننا اس ملک کے زوال کی واضح علامت ہے۔
امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تیسویں برسی کے پروگرام میں شریک لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نےانہیں شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔
آپ نے فرمایا کہ امام خمینی کی رحلت کو تیس سال گذر جانے کے بعد بھی ماہ رمضان کی سہ پہر اور اس گرم موسم میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا یہاں جمع ہونا امام خمینی کے جاذبے کی ایک واضح دلیل ہے۔
آپ نے فرمایا کہ چند روز قبل بھی دنیا نے امام خمینی( رح ) کی شخصیت کے اثرات کا مشاہدہ کیا یعنی عالمی یوم قدس میں پوری دنیا میں لوگوں نے وسیع پیمانے پر شرکت کی۔
آپ نے فرمایا کہ امام خمینی نے چالیس سال قبل یوم قدس کا اعلان کیا تھا لیکن آج یوم قدس ہرسال سے زیادہ پرشکوہ طریقے سے منایا جا رہا ہے اور اس سال یوم قدس دنیا کے سو ملکوں میں منایا گیا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایک ایسے وقت میں جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مسئلہ فلسطین کو حاشیے پر ڈالنے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں تو امام خمینی کے اعلان کردہ یوم قدس میں لوگوں کی وسیع پر پیمانے پر شرکت نے ثابت کردیا کہ مسئلہ فلسطین زندہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام خمینی ایک شجاع و مدبر و متقی اور اللہ پر توکل کرنے انسان تھے۔ وہ ظلم کے خلاف تھے اور ظلم کے خلاف لڑتے رھے، وہ مظلوموں کے حامی تھے اور انصاف کے متوالوں اور مظلوموں کے طرفدار اور عوام کے سلسلے میں مخلص و صادق تھے۔ وہ مجاہد فی سبیل اللہ تھے ہمیشہ مجاہدت کرتے رہے۔ یہ سب امام خمینی رح جذابیت کے عوامل تھے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے امام خمینی کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امام کی ایک ممتاز خصوصیت استقامت تھی۔ آپ نے فرمایا کہ جس چیز نے امام خمینی کو ایک نظریے کے طور پر تاریخ میں پیش کیا وہ استقامت و پامردی اور مشکلات و طاغوتوں کے مقابلے میں پوری قوت کے ساتھ ڈٹ جانا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ امام خمینی طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ہمیشہ ڈٹے رہے اور خواہ وہ اندرونی طاغوت ہوں یا بیرونی طاغوت ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی بیرونی طاغوتوں کے مقابلے میں امام خمینی نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے اور ان کی یہ استقامت و پامردی قرآن کریم کی بہت سی آیتوں کی عملی پیروی تھی۔ عالمی طاقتوں کی دھونس و دھمکیوں اور لالچ و فریب کا امام خمینی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اہم بات تو یہ تھی کہ دشمن امام خمینی کے اندازوں کو کبھی بھی درھم برہم نہیں کرسکا کیونکہ وہ دین مبین اسلام کے بَیِّنات پر تکیہ کرتے تھے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امام خمینی نے جس راستے پرثابت قدمی کا مظاہرہ کیا وہ دین خدا کی حاکمیت تھی، وہ اسی مقصد پر ڈٹے رہے اور جب وہ اسلامی جمہوری نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تواعلان کیا کہ نہ تو ہم ظلم کریں گے نہ ظلم کو برداشت کریں گے اور یہ سب قرآنی تعلیمات سے لیا گیا نعرہ تھا۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ استقامت بتدریج ایران کی سرحدوں سے بھی باہر نکل گئی، یہ خود بخود باہر نکلی ہے اگرچہ اغیار کے سیاستداں ہم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم انقلاب کیوں برآمد کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، فکر اور سیاست اگرصحیح ہو تو قومیں خود بخود اس کو اپنا لیتی ہیں۔ آج علاقے کی اقوام کا مشترکہ نعرہ استقامت ہے، سب استقامت کو اپنا رہے ہیں۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں کو پچھلے چند برسوں کے دوران عراق شام اور دیگر جگہوں پر جس شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اسی استقامت کا نتیجہ ہے اور آج علاقے کی قوموں نے اگر استقامت کا راستہ اپنایا ہے تو انہوں نے ایرانی عوام سے اس راستے کو اپنایا ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اہم بات یہ ہے کہ امام خمینی نے، استقامت کا راستہ جذباتی طریقے سے منتخب نہیں کیا بلکہ انہوں نے منطق عقل اور دین کی بنیاد پر استقامت کو انتخاب کیا۔ کیونکہ استقامت ہی منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں اپنی عزت و شرف کا تحفظ کرنے کا بہترین طریقہ ہے اور استقامت کی وجہ سے دشمن پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے چالیس سالہ دور میں بھی تجربے نے ثابت کیا ہے جب بھی ہم نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہم آگے بڑھے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دشمن کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بھی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے جس طرح سے ماضی میں ایران کی شاہی حکومت کو اور آج سعودی حکومت کو دشمن کے سامنے سرجھکانے کی قیمت چکانی پڑ رہی ہے، اس کی توہین کی جا رہی ہے اور سعودی حکومت کو دودھ دینے والی گائے کہا جاتا ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امام خمینی نے اس وعدہ الہی کو اپنے مد نظر رکھا تھا اور امام خمینی نے ثابت کردیا کہ استقامت ایک امر ممکن ہے اور فریق مقابل کی ظاہری قوت و طاقت سے مرعوب نہیں ہونا چاہئے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بڑی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ اندازوں کی غلطی ہے، اگر ہم عالمی سامراج کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُس استقامت کو اپنے مد نظر رکھنا چاہئے جس کا مظاہرہ امام خمینی نے کیا تھا اور خرمشہر کی آزادی کے بعد عالمی سطح پر امام خمینی کی استقامت کی ڈاکٹرائن کا عنوان سامنے آیا تھا، یعنی جدیدترین ہتھیاروں کے بغیر کروڑوں لوگوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنا اور اس چیزکا مغربی تجزیہ نگاروں نے اعتراف بھی کیا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بقا کا راز یہی استقامت ہے جس کا درس امام خمینی نے ہمیں دیا ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ آج علاقے اور علاقے سے باہر، استقامتی محاذ گذشتہ چالیس برسوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ منظم ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے مقابلے میں امریکا اور اسرائیل بتدریج کمزور ہوئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بعض امریکیوں نے خود اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ امریکا اندر سے سیاسی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے کھوکھلا ہو رہا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے سیاسی میدان میں امریکا کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی ایک دلیل ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کا عہدہ صدارت کے لئے منتخب ہوجانا ہے کیونکہ امریکا کے تین سو ملین سے زیادہ لوگوں کی تقدیر جب ٹرمپ جیسے بد اخلاق اور ذہنی اعتبار سے غیر متوازن شخص کے ہاتھ میں آجائے، تو یہ ظاہرکرتا ہے کہ امریکا سیاسی زوال کا شکار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ٹرمپ انتظامیہ صیہونی حکومت کے جرائم اور یمن پر ہونے والے وحشیانہ حملوں کی حمایت کر رہی ہے تواس سے بڑھ کر سیاسی زوال اور کیا ہوسکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایران کے عوام ہیں جن کے پاس سیاسی شعور وآگہی اور میدان عمل میں ان کی موجودگی ہے۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ استقامت کا مقصد اقتصادی، سیاسی، سماجی اور دفاعی میدان میں ایسی منزل پر پہنچنا ہے کہ دشمن ہم پر کسی بھی طرح کی ضرب لگانے کی ہمت نہ کرسکے اور آج دفاعی اور فوجی میدانوں میں ہم جس بلند پرمقام پر پہنچ چکے ہیں، دشمن بھی اس کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور ہمیں دفاعی صلاحیتوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ کبھی ایسا نہیں کرسکے گا۔