روز معلّم کون سا دن ہے؟

روز معلّم کون سا دن ہے؟

معلم و استاد جب کلاس میں قدم رکھتا ہے تو تمام جگہ اس سانسیں گھونجنے لگتی ہے گھر سے لے کر مدرسہ اور اسکول تک وہ ہر ایک قدم کے نتیجہ میں جنت کے قریب ہوتا ہے، وہ دلوں کو پاک و پاکیزہ بنا دیتا ہے اور انہیں طراوت و شادابی اور پاکیزگی کی دعوت دیتا ہے۔

روز معلّم کون سا دن ہے؟

معلم و استاد جب کلاس میں قدم رکھتا ہے تو تمام جگہ اس سانسیں گھونجنے لگتی ہے گھر سے لے کر مدرسہ اور اسکول تک وہ ہر ایک قدم کے نتیجہ میں جنت کے قریب ہوتا ہے، وہ دلوں کو پاک و پاکیزہ بنا دیتا ہے اور انہیں طراوت و شادابی اور پاکیزگی کی دعوت دیتا ہے۔

استاد کی ذمہ داری

استاد کی حقیقی ذمہ داری انبیاء کی پاک ذمہ داری ہے، اس وقت جب استاد کا مقصد صرف انسان سازی اور کمال ہوتا ہے تو وہ انبیاء کا ہم نشین ہو جاتا ہے۔ وہ ایسی صورت میں حقیقی ذمہ دار اور صداقت و سرفرازی کا سفیر ہوتا ہے۔ استاد وہ ہے جو معرفت و علم کے تشنگان کو آب حیات تک پہونچاتا ہے، خدا بھی استاد ہے اس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو انسانی ہدایت کے لئے بھیجا اور وہ اولیاء، پاک و پاکیزہ اور خدا کی جانب سے انتخاب کئے گئے تھے اور وہ سب بھی اساتید تھے لہذا اگر ہم اساتید کی قدردانی نہ کریں تو ہم نے خوبیوں، اچھائیوں اور فضیلتوں کا انکار کیا ہے۔

استاد، جناب نراقی(رہ) کی نگاہ میں

ملا احمد نراقی شیعہ علماء میں سے ایک عالم دین ہیں وہ استاد کے مقام کے سلسلہ میں کہتے ہیں: استاد کے نزدیک تعلیم کا مقصد صرف خداوندمتعال کی خوشنودی، لوگوں کی رہنمائی اور ثواب کمانا ہونا چاہئے نہ یہ کہ وہ مقام و منزلت اور جاہ و حشمت و شہرت و ریاست کے پیچھے ہو، استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگرودں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے اور انہیں مسلسل وعظ و نصیحت کرتا رہے اور ان کی صلاحیتوں کو بھی مد نظر رکھے اور ان سے نرمی سے گفتگو کرے نیز ان پر ہر گز سختی نہ کرے جو چیز حقیقت کے خلاف ہو اس کی انہیں ہرگز تعلیم نہ دے اور انہیں تعلیم میں بھی بخیلی سے کام نہ لے اور ایسے مطالب شاگردوں کو نہ سکھائے جنہیں وہ ادراک کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

استاد، امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں

امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں معاشرہ کی سعادت و بدبختی استاد کے ہاتھ میں ہے اس سلسلہ میں وہ یوں فرماتے ہیں: سب سے پہلا استاد خداوندمتعال ہے جو انسانوں کو ظلمتوں سے نور کی جانب لے جاتا ہے اور وہ انبیاء اور ان پر نازل ہونے والی وحی کے ذریعہ انہیں دعوت دیتا ہے نورانیت و کمال کی جانب دعوت دیتا ہے، عشق و محبت کی دعوت دیتا ہے خلاصہ یہ کہ وہ انہیں مراتب کمال کی دعوت دیتا ہے۔ انسان کو دعوت دینے والے انبیاء ہیں جو اسے خدائی مکتب و مذہب کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے سامنے خدا کی جانب سے لائے گئے پیغامات کی نشر و اشاعت کرتے ہیں۔ ان کا مشغلہ بھی انسان کی تربیت ہے تا کہ وہ حیوانی زندگی سے نکل کر مقام انسانیت پر فائز ہو پائے لہذا ہر قسم کی سعادت اور ہر قسم کی بد بختی کی جڑیں مدرسہ اور اسکول میں پوشیدہ ہیں اور ان کی چابی صرف استاد کے ہاتھ میں ہے اساتید ہی ہیں جو ملکی آزادی و استقلال کی حفاظت کر سکتے ہیں اور وہ تربیت میں کوئی کمی چھوڑ دیں اور اس کے نتیجہ میں اگر تربیت میں مشکلات ہوں تو پورا ملک تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔

استاد کی قدر دانی

کئی سالوں سے عظیم الشان استاد جناب شہید مطھری کی شہادت کی مناسبت سے پورے ملک میں اساتید کی قدر دانی کی جاتی ہے، استاد کی تکریم و تعظیم در حقیقت علم و معرفت کی تکریم و تعظیم ہے، استاد کی قدردانی کا مطلب اس انسان کا شکریہ ادا کرنا ہے جو مقصدِ خلقت کی تعلیم دیتا ہے اور وہ ان امانتوں کی پاسداری کرتا ہے جو اس کے حوالے کی جاتی ہیں جس معاشرہ میں محبت و مٹھاس کا جلوہ ہے اس کے پیچھے یقیناً کسی استاد کا پوشیدہ یا عیاں کردار ہوتا ہے یقیناً وہ معاشرہ جس میں ہمیشہ استاد کا احترام کیا جاتا ہے اس میں رشد و ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں اور اس میں علم و معرفت کے چشمہ پھوٹتے ہیں اور وہ معاشرہ جو اپنے اساتید کا احترام اور ان کی قدردانی نہیں کرتا اس نے تمام خوبیوں اور فضیلتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور کتنی عجیب بات ہے پوری زندگی سورج کے ساتھ رہنا اور اس سے مستفید نہ ہونا!۔

ایک دلچسپ داستان

ایک استاد کی داستان ہے کہ وہ جب بھی کلاس میں داخل ہوتا تھا تو سب بچے اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے وہ ہمیشہ نرمی سے پیش آتا ایک دن وہ جب کلاس میں داخل ہوا تو اس نے کچھ لمحے خاموشی اختیار کی تا کہ وہ کچھ بات کریں اور پوری کلاس اس کی باتوں کو سننے کے لئے تیار ہو جائے، اس نے پوری کلاس کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے اپنے دلنشین کلام کا آغاز کیا اے بچو! شائد آج میرے کلاس کا آخری دن ہے۔ میں کل محاذ جنگ یعنی اہواز کی جانب روانہ ہو رہا ہوں اور میں تم سب سے معافی چاہتا ہوں، اشکوں سے بچوں کے رخسار بھر گئے تھے، اس کے بعد استاد نے جدید استاد کے بارے میں تاکید کی اور بچوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ہمیشہ اس کا احترام کریں بالآخر اس نے ایک ایک بچے سے خدا حافظی کی وہ چلا گیا اور کچھ عرصہ بعد خبر ملی کہ وہ شہید ہو گیا ہے وہ اس دار فانی سے چلا گیا لیکن اس کی یادیں ہمیشہ کے لئے بچوں کے اذہان میں رہ گئیں۔

استاد کی ایک اہم خصوصیات یہ ہے کہ وہ کشادہ سینہ ہونا چاہئے اور ہر قسم کے مسائل میں اسے بہترین حکمت عملی کا مظاہرہ کرنا چاہئے خداوندمتعال اپنے پیغمبر یعنی پیغمبر اسلامؐ پر احسان کر رہا ہے کہ اس نے انہیں شرح صدر عطا کیا ہے  اور اسی کے نتیجہ میں لوگ ان کی جانب مائل ہوتے تھے، استاد کے لئے لازمی ہے کہ وہ پیغمبر اسلامؐ کو نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے کشادگی سینہ کا مظاہرہ کرے۔ اور یہ عمل استاد کا ہنر ہے ایک استاد کی جانب سے در گزر کرنے کے نتیجہ میں کلاس کی فضا آرام بخش ہو جاتی ہے اور شاگرد ایسی فضا میں بہتر انداز میں تربیت پاتے ہیں۔

شہید مطھری کی یاد

استاد مرتضی مطھری کی تاریخ شہادت کے موقع پر اسے روز استاد کے نام سے انتخاب کرنا نہایت ہی اچھا عمل ہے۔ جناب استاد مطھری ایسے استاد تھے جنہوں نے حوزہ علمیہ کے مایہ ناز اساتید سے فقہ، اصول، کلام و فلسفہ و عرفان وغیرہ  جیسے علوم میں کسب فیض کیا اور وہ خود بھی نہایت ہی ہوشیار و آگاہ و با بصیرت استاد تھے وہ ایک شائستہ و لائق اور دردمند انسان تھے ان کا اصلی دغدغہ یہ تھا کہ دین کو انحرافات سے بچائیں  اور اس راستہ میں وہ کسی سے بھی نہیں گھبرائے اور انہوں نے اسلام ناب اور حقیقی اسلام کا دفاع کیا نیز انہوں نے مغربی دنیا سے متأثر روشنفکروں کا بھی مقابلہ کیا اور ان لوگوں کا بھی مقابلہ کیا جو اپنے دین اور زمانے کے تقاضوں کے سلسلہ میں با خبر نہیں تھے۔

منبع: howzah.net      

ای میل کریں