آج 4/ شعبان ، امیرالمومنین، امام المتقین، سید الاوصیاء حضرت علی بن ابیطالب (ع) اور ام البنین (س) کے ماہ درخشاں حضرت ابوالفضل العباس (ع) کی ولادت کی تاریخ ہے۔آپ (ع) کی ولادت سے عالم ہستی میں ایک دوسرا نور درخشاں ہوا اور عالم امکان کو روشن و منور کردیا۔ امیرالمومنین (ع) کے چاہنے والوں کے قلوب عشق و محبت سے لبریز ہوگئے۔ اہلبیت کے ماننے والوں کے چہرہ پر شادابی آگئی۔ اسلام مسکرانے لگا۔ ایمان و وفاداری نے خوشیوں کے شادیانے بجائے، فن سپہ گری نے ترانے گائے۔ جس نے سنا وہ اپنے مولات کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے میں سبقت لینے لگا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے اس بیٹے کا نام عباس رکھا، عباس یعنی میدان جنگ کا بہادر اور ہمیشہ شجاعت کا شیر۔
کربلا کے علمدار اور اہل حرم کے محافظ اور پاسدار حضرت عباس(ع) کے خصوصیات اور فضائل بہت ہیں کہ آپ کے القاب و کنیت انہی کی عکاسی کررہے ہیں۔ ماہ بنی ہاشم، آپ کے جمال کی حکایت ہے۔ سقائے کربلا، آپ کی جاں نثاری کی حکایت ہے۔ کربلا کا پرچم دار اور علقمہ کا بہادر آپ کی شجاعت کی حکایت ہے۔ پاسدار حرم اہلبیت (ع) کی راہ میں جاں نثاری اور قربانی کی حکایت ہے۔ عبد صالح، روحانی عظمت و کرامت کی حکایت ہے۔
حضرت امام سجاد (ع) حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں: حضرت عباس (ع) کی عظمت و شان اور بزرگی کے لئے یہی کافی ہے کہ ائمہ معصومین (ع) نے متعدد مقامات پر آپ کی جاں نثاری، قربانی اور آپ کی عظیم شخصیت کا ذکر کیا ہے۔ امام سجاد (ع) خود کربلا میں موجود تھے اور اپنے چچا کی جاں نثاری کے گواہ تھے۔ آپ (ع) حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں: خدا میرے چچا عباس پر رحمت نازل کرے کا آپ نے ایثار و قربانی کے ساتھ اپنے بھائی کی راہ میں اپنی قربانی دے دی۔ یہاں تک آپ کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے اور خداوند عالم نے اس کی جگہ پر دو بال و پر دیئے ہیں جس کی مدد سے فرشتوں کے ہمراہ جنت میں پرواز کریں گے۔ جس طرح جعفر بن ابی طالب کے لئے ہے۔ عباس خدا کی نزدیک وہ منزلت ہے کہ تمام شہداء رشک کریں گے۔
حضرت عباس (ع) نے اپنے بھائی، امام، پیشوا کی بیعت کی حفاظت کے لئے جو عہد کیا تھا اس پر وفادار رہے۔ لوگوں نے پوری تاریخ انسانیت میں ایسی وفاداری نہ دیکھی ہوگی اور نہ ہی سنی ہوگی۔ آپ صرف ایک بہادر اور نامی گرامی دلاور ہی نہیں تھے بلکہ آپ کے علمی فضائل، تقوی اور پرہیزگاری بلند و بالا علم و دانش علوم الہی کے سرچشمہ سے حاصل ہوئے تھے۔ چنانچہ بعض روایات میں اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ بچپنے ہی سے علمی غذا حاصل کررہے تھے۔ آپ کا فقہی مقام بہت تھا۔ آپ راویوں کے نزدیک مورد وثوق اور قابل اعتماد تھے اور زہد و تقوی کی اعلی منزل پر فائز تھے۔ چنانچہ بعض رجالیوں نے لکھا ہے کہ عباس اولاد ائمہ میں فقیہ، دین شناس، عادل، مورد اعتماد، اہل تقوی اور پارسائی تھے۔ دوسرے لوگوں نے بھی اس طرح کیا ہے کہ عباس فقہائے اہلبیت میں فاضل شخصیت کے مالک تھے بلکہ استاد کے بغیر ایک عالم تھے۔
حضرت امام خمینی (رح) نے حضرت ابوالفضل العباس (ع) کی ولادت کے موقع پر اپنے الہی کلام میں بارہا فرمایا ہے کہ مجاہدین اسلام اور اسلام کی راہ میں جاں نثاری کرنے والے ہماری ملت کے لئے سرافرازی اور سربلندی کا سرمایہ ہیں۔ حضرت عباس (ع) تاریخ انسانیت کے عظیم مجاہدین کہ آپ نے میدان کربلا کو ایثار اور جاں نثاری کی جلوہ گاہ بنادیا۔