فتح خیبر کی داستان

فتح خیبر کی داستان

۲۴ رجب سن ۷ ھ ق تاریخ کا ایسا دن ہے جس دن حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں جنگ خیبر میں قلعۂ خیبر فتح ہوا ہے

فتح خیبر کی داستان

۲۴ رجب سن ۷ ھ،ق تاریخ کا ایسا دن ہے جس دن حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں جنگ خیبر میں قلعۂ خیبر فتح ہوا ہے۔ مجمع البیان میں فتح خیبر کی داستان میں مذکور ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیبیہ سے مدینہ کی جانب لوٹے تو مدینہ میں بیس دن قیام فرمایا اور اس کے بعد جنگ خیبر کا رخ کیا۔ ابن اسحاق مروان اسلمی اور وہ اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم سب رسول خداؐ کے ساتھ خیبر کی جانب روانہ تھے جب اس کے قریب پہونچے تو اس کے قلعوں کو دیکھ کر رسول خداؐ نے لوگوں کو رکنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اے خدا! اے سات زمینوں اور آسمانوں کے پروردگار! میں تجھ سے اس وادی میں بسنے والے تمام نیک افراد کی بھلائی کا تقاضا کرتا ہوں اور اس میں موجودہ تمام برے افراد کے شرّ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اس کے بعد آپؐ نے آگے بڑھنے کا حکم دیا۔

سلمہ بن اکوع سے منقول ہے کہ ہم سب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رات کی تاریکی میں خیبر کی جانب روانہ تھے اسی اثنا میں ہمارے لشکر کے ایک شخص نے عامر بن اکوع سے مذاق کرتے ہوئے کہا: اپنے اشعار میں سے کچھ ہمارے لئے پڑھو، عامر ایک شاعر تھے انہوں نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے: اے خدا اگر تیرا لطف و کرم نہ ہوتا تو ہم نہ حج کی توفیق ہوتی نہ صدقہ اور نہ ہی نماز کی۔ لہذا اے خدا ہمیں بخش دے ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ تیری راہ میں قربان ہوجائے اور تو ہمارے قدموں کو دشمن کے سامنے ثابت قدم رکھنا اور جنگ میں ہمارے دلوں پر سکون طاری کرنا اور رسول خداؐ بھی ہمارے اوپر اعتماد کرتے ہوئے ہمیں جنگ کی دعوت دیتے ہیں۔ رسول خداؐ نے فرمایا: یہ کون شخص تھا جو اشعار کے ذریعہ اپنے اونٹ کو چلا رہا تھا تو جواب ملا کہ یہ عامر ہے آپؐ نے فرمایا: اس پر خدا رحمت کا نزول ہو۔ اس دن عامر ایسے اونٹ پر سوار تھے جو بار بار انہیں زمین پر گرا دیتا تھا لوگوں نے رسول اسلامؐ سے کہا یا رسول اللہؐ عامر کی ہمیں بہت ضرورت ہے اس کے لئے دعا کیجئے کیونکہ رسول اسلامؐ جس کے بارے کہا کرتے کہ خدا اس پر رحمت نازل فرمائے تو وہ شخص جنگ میں شھید ہو جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جیسے ہی جنگ کا آغاز ہوا تو ایک یہودی  قلعہ خیبر سے باہر نکلا اور اس نے اپنے مقابلہ کے لئے لشکر اسلام سے مبارز طلب کیا تو عامر رجز خوانی کے انداز میں نکلے اور دونوں کے درمیان کافی دیر تک جنگ چلتی رہی اور آخر کار عامر نے اس یھودی کے پاؤں پر تلوار کا وار کیا لیکن وہ پیچھے ہٹ گیا اور تلوار کی شدتِ ضربت کے نتیجہ میں وہ خود زخمی ہوگئے کیونکہ وہی ضربت ان کے زانوں پر جا لگی اور اسی درد کے نتیجہ میں دنیا سے چلے گئے۔ سلمہ کہتے ہیں رسول خداؐ کے بعض صحابی کہنے لگے کہ عامر نے خود کشی کی ہے لہذا انہیں کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا یہ سنتے ہی میں رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ بعض صحابی اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں تو آپؐ نے فرمایا: وہ جھوٹ کہہ رہے ہیں بلکہ خدا انہیں دگنا اجر عطا کرے گا۔ لہذا کل میں اس کے ہاتھ میں علم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کا محب ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں اور خدا وندمتعال اس کے ہاتھوں قلعہ کو فتح کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے قلعہ خیبر کا محاصرہ کیا اور کافی دنوں تک محاصرہ رہا اور اس کے بعد خدا کی امداد سے قلعہ فتح ہوا محاصرہ کے ایام میں پرچمِ جنگ بہت سے صحابیوں کو تھمایا گیا جن میں حضرت عمر، ابوبکر وغیرہ بھی شامل تھے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ لشکر، سردار اور سردار، لشکر کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے واپس آ جاتے تھے۔ ان دنوں رسول خداؐ سر درد میں مبتلا تھے اور خیمہ سے باہر کم ہی تشریف لاتے تھے اور انہیں با خبر کیا جاتا تھا کہ خیبر میں کیا ہو رہا ہے جب داستانیں آپؐ کے سامنے نقل کی گئی تو آپؐ نے فرمایا: کل میں اس کے ہاتھ میں علم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کا محب ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں جو کبھی بھی راہ فرار اختیار نہیں کرے گا اور قلعہ فتح کرنے سے پہلے دشمن کی صفوں کو ترک نہیں کرے گا اور خداوندمتعال بھی اس کے ہاتھوں قلعہ کو فتح کرے گا۔

بخاری و مسلم نے قتیبہ بن سعید سے روایت نقل کی ہے کہ یعقوب بن عبدالرحمن اسکندرانی نے ابی حزم سے نقل کیا ہے کہ سعد بن سھل سے منقول ہے کہ رسول خداؐ نے واقعہ خیبر میں فرمایا:  کل میں اس کے ہاتھ میں علم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کا محب ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اس کو دوست رکھتے ہیں، اس رات سب انتظار میں تھے کہ دیکھیں کل پرچم کسے دیا جائے گا جب صبح نمودار ہوئی تو سب رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب امید لگائے ہوئے تھے کہ یہ پرچم ہمیں تھمایا جائے گا اسی اثنا میں رسول خداؐ نے فرمایا: علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟  جواب ملا کہ وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں، فرمایا: انہیں بلا کر لاؤ جب انہیں بلایا گیا تو آپؐ نے لعاب دہن ان کی آنکھوں پر ملا اور اس کے نتیجہ میں انہیں شفا مل گئی ا سکے بعد آپؐ نے پرچم ان کے ہاتھوں میں دیا۔ علی علیہ السلام نے آپؐ سے سوال پوچھا: مسلمان ہونے تک ان سے لڑوں؟ آپؐ نے فرمایا: جنگ جاری رکھتے ہوئے ان کی قلعہ کے اندر داخل ہو جاؤ اور ا س کے بعد انہیں اسلام کی دعوت دو اور خداوندمتعال کے حقوق ان کے سامنے بیان کرو جو ان کے ذمہ ہیں اس لئے کہ اگر خداوندمتعال تمہارے ہاتھوں ایک شخص کی ہدایت کر دے تو یہ چیز تمام مادی نعمتوں سے تمہارے لئے بہتر ہے۔ سلمہ کہتے ہیں: دشمن کے لشکر سے رجز خوانی کرتے ہوئے مرحب باہر آیا اور اس نے کہا میں مرحب ہوں علی علیہ السلام نے بھی رجز خوانی کے انداز میں فرمایا: میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس کے بعد ان دونوں میں جنگ ہوئی اور علی علیہ السلام نے اسے واصل جہنم کرتے ہوئے قلعہ کو فتح کیا۔

ابو عبداللہ حافظ سلسلہ سند کے ذریعہ رسول خدا کے آزاد شدہ غلام ابو رافع سے نقل کرتے ہیں کہ جب رسول خداؐ نے علی علیہ السلام کو قلعہ خیبر کی جانب روانہ کیا تو ہم ان کے ساتھ تھے جب علی علیہ السلام قلعہ کے قریب پہونچے تو اہل قلعہ نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا اور انہوں نے سب کو بھگا دیا اسی اثنا میں ایک یھودی نے ان کی سپر پر وار کیا سپر ان کے ہاتھوں سے گر گئی اچانک انہوں نے دروازے کو اکھاڑ کر سپر بنا لیا اور اسی طرح جنگ جاری رکھی یہاں تک کہ قلعہ ان کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہم آٹھ آدمی مل کر بھی اس قلعہ کو ہلانے میں ناکام رہے جسے علی علیہ السلام نے اکھاڑ کر پھینکا تھا۔ بعض روایات میں چالیس اور بعض میں ستر افراد کا بھی ذکر آیا ہے۔ طبرسی کہتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد رسول خداؐ نے ایک ایک کر کے دوسرے قلعوں کو بھی فتح کر لیا اور آخر کار " وطیح اور سلالم" نامی دو قلعے بچ گئے اور انہیں بھی فتح کر لیا۔ ابن ابی الحقیق نے کسی شخص کو رسول اسلامؐ کی خدمت میں بھیجا کہ ہم صلح کرنا چاہتے ہیں رسول خداؐ نے بھی اس تقاضے کو قبول فرمایا۔ اہل فدک نے بھی رسول خداؐ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ہمیں بھی اپنے گھروں لوٹنے کی اجازت دی جائے اور ہم بھی جنگ سے دست بردار ہو رہے ہیں اور جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے اسے مسلمانوں کے حوالے کرتے ہیں رسول خداؐ نے یہ رائے بھی قبول کر لی۔ اس کے نتیجہ میں اموال خیبر کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا گیا کیونکہ انہیں جنگ کے ذریعہ فتح کیا گیا۔ لیکن اہل فدک کے اموال رسول خداؐ سے مخصوص ہو گئے کیونکہ انہیں جنگ کے ذریعہ فتح نہیں کیا گیا تھا۔

منبع: howzah.net         

   

ای میل کریں