امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: میری زندگی میں جتنی قربانیاں میری شریک حیات نے دی ہیں اور میری کامیابی کا باعث بنی ہیں اتنی کسی اور نے نہیں کی ہیں۔
کامیابی کے لئے عورت اور مرد نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اگر کوئی عورت اپنی زندگی میں کامیاب و کامرانی رہی ہے تو اس میں اس کے صالح اور نیک مرد کی بے دریغ حمایت ہے اور اگر مرد کامیاب رہا ہے تو اس میں بھی اس کی شریک حیات کی نصرت اور حمایت رہی ہے۔ کوئی یه دعوی نهیں کرسکتا کہ اس کی کارکردگی اور کامیابی میں اس کی بیوی اور خاندان کا کوئی کردار نہیں رہا ہے۔ یقینا ببانگ دھل کہنا چاہیئے کہ ہر کامیاب مرد کی کامیابی کے پیچھے اس کینیک اور سمجھدار بیوی کا ہاتھ رہا ہے۔ کلی طور پر اس طرح کے لوگوں کی کامیابی صرف ان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس میں ان کے گھروالوں کا بھی ہاتھ رہا ہے۔
امام خمینی (رح) کی زوجہ خانم ثقفی ایک مثالی شریک حیات کے عنوان سے کامیابی صرف امام کی اطاعت کی اطاعت کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ یہ خود بھی خاص شخصیت اور اخلاق کی مالک تھیں۔ اس کے علاوہ کے گھر اور باہر کی ذمہ داریاں آپ کے اوپر تھیں اسی طرح اجتماع میں آپ کی مخصوص رفتار اور مدیریت بھی امام کی کامیابی میں چار چاند لگاتی ہے۔ مقابلوں کے دوران خواہ قم میں ہو یا نجف میں خانم ثقفی اپنے اچھے اخلاق اور نیک عادات و اطوار کی بناء پر علماء اور مراجع کے بیوت میں منصوبہ بند آمد و رفت رکھتی تایں اور امام کے قریبی شاگردوں اور ساتھیوں سے اچھا رابطہ رکھتی تھیں۔ اس نے امام کی کامیابی اور سرگرمی کے لئے ایک بہترین راہ ہموار کی بالخصوص آپ کا قیدی مجاہدوں کے خانوادوں سے رابطہ ان لوگوں کے سکون و اطمینان کا باعث ہوا اور خود امام (رح) اور دیگر مجاہدین کی راہ کو آسان بنانے کا سبب ہوا۔
ایک شخص اپنی کامیابی اور خوش بختی میں جہاں مالی اور مادی احتیاج رکھتا ہے وہیں پر اسے معنوی اور ورحانی امداد اور حمایت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہی خانوادگی حمایت، دوستی اور گهرا لگاؤ ہے کہ بعض افراد نے معنوی اور ورحانی بلند بالا چوٹی تک پہونچ گئے اور علم اور قدرت کے بلندترین مرحلہ تک پہونچ سکتا ہے۔ لہذا امام ہمیشہ اپنی اولاد، پوتے، پوتیوں اورنواسیوں کو تاکیدکرتےتھے کہ اپنی خانوادگی زندگی میں باہم دوست اور رفیق رہنے کی کوشش کرو تا کہ کامیابی آپ کے قدم چومے۔
خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے تمدن مردوں اور عورتوں کے مشترک کاموں کی پیداوار ہے کہ ہر ایک نے اپنی صلاحیت اور توانائی کے بقدر اجتماع میدان میں روشنی بخشی ہے اور تمدن کی بنیاد رکھنے میں شریک رہے ہیں۔ امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: یہ سچ ہے کہ مرد ملت پر حق رکھتے ہیں اور ان کی انسانیت کی تہذیب و تمدن اور ترقی میں خاص کردار رہا ہے لیکن عورتیں اس سے زیادہ حق اور کردار رکھتی ہیں؛ کیونکہ انہی عورتوں نے اپنے دامن میں عظیم اوردلاور مردوں کوپروان چڑھایا ہے اور جس طرح قرآن کریم انسان ساز ہے اسی طرح عورت بھی انسان ساز ہے، عورت معاشرہ کی تربیت کرنے والی ہے۔ عورت کے دامن سے انسان پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کی نیک نامی اور بدنامی اور ملک کی سعادت اور بدبختی عورت کے دم قدم سے ہے، عورت اپنی صحیح تربیت سے انسان بناتی ہے اور ملک کو آباد کرتی ہے۔ ہر خیر و سعادت کا سرچشمہ عورت ہی ہے۔ ایک مہربان اور اچھی عورت کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار، عادات و اطوار، طور طریقے، مزاج اور طبیعت کی وجہ سے انسان اور دنیا آباد کرتی ہے اور انسانیت کی نابودی اور پرباری کے اسباب کا خاتمہ کردیتی ہے۔ عورت گھر کے کام کاج کے علاوہ بچہ داری، مہمان نوازی اور زمانہ کے پرناگوار حالات پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے اپنے شوہر اور سماج کے مردوں کو ان کے مشن میں کامیاب بناتی ہے۔